Saturday, August 27, 2022

پیر اور مرید کا کیا معنی؟ فتویٰ دارلعلوم دیوبند،

سوال نمبر: 604344

عنوان:
پیر اور مرید كی تعریف؟

سوال:
پیر اور مرید کیا ہے، یہ سب شریعت میں ہے؟ یہ نہیں تفصیل سے وضاحت فرمائیں۔

جواب نمبر: 604344
بسم الله الرحمن الرحيم

Fatwa : 952-714/H=08/1442

 جس شخص کے اخلاقِ رذیلہ (تکبر، حسد، بغض، ریا و نمود حب جاہ وحب مال وغیرہ) کی اصلاح ہوگئی اور اخلاقِ فاضلہ (سخاوت، شجاعت، اخلاص، توکل وغیرہ) نیز اعمال صالحہ میں رسوخ کا درجہ اس کو حاصل ہوگیا اتباع سنت و احکام شرع کا پابند ہوگیا اور اس پر کسی متبع سنت شیخ کامل نے اعتماد کیا اور اس کو اجازت دیدی کہ اخلاق رذیلہ کی اصلاح اور اخلاق فاضلہ کے حصول میں مسلمانوں کی خدمت انجام دیا کرو ایسا شخص پیر ہے اور جس کی اصلاح اس سے متعلق ہے وہ مرید ہے اور یہ امور قرآن کریم اور حدیث شریف سے ثابت ہیں۔ تعلیم الدین ایک چھوٹی سی کتاب ہے کتب خانوں میں قیمتاً دستیاب حضرت اقدس مولانا اشرف علی صاحب رحمہ اللہ کی تصنیف ہے اس میں تفصیل ملاحظہ فرمالیں۔

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

Thursday, August 25, 2022

مزدور اور حضرت ابو عامر ر۔ہ کا عجیب واقعہ

بغداد کے ایک بزرگ ابو عامر رحمہ اللہ علیہ اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار میرے ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﮔﺮ ﮔﺌﯽ، مجھے ﺑﮍﯼ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯽ ﻻﺣﻖ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺑﻨﻮﺍﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮐﺴﯽ ﻣﺰﺩﻭﺭ ﮐﯽ ﺗﻼﺵ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﻧﮑﻼ ﺍﻭﺭ ﭼﻮﺭﺍﮨﮯ ﭘﺮ ﺟﺎﭘﮩﻨﭽﺎ، ﻭﮨﺎﮞ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﻣﺰﺩﻭﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺟﻮ ﮐﺎﻡ ﮐﮯ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺗﮭﮯ، ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺍﻟﮓ ﺗﮭﻠﮓ ﮐﮭﮍﺍ ﺗﮭﺎ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﯿﻼ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺸﮧ ﺗﮭﺎ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﻣﺰﺩﻭﺭﯼ ﮐﺮﻭ ﮔﮯ؟

ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﮨﺎﮞ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ غاﺭﮮ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﻮﮔﺎ، ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﺮﯼ ﺗﯿﻦ ﺷﺮﻃﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﺍﮔﺮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻣﻨﻈﻮﺭ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺗﯿﺎﺭ ﮨﻮﮞ، ﭘﮩﻠﯽ ﺷﺮﻁ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﻢ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺰﺩﻭﺭﯼ ﭘﻮﺭﯼ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﻭ ﮔﮯ، ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺷﺮﻁ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﻃﺎﻗﺖ ﺍﻭﺭ ﺻﺤﺖ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﮐﺎﻡ ﻟﻮ ﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺴﺮﯼ ﺷﺮﻁ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﻣﺠﮭﮯ ﻧﻤﺎﺯ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﻭﮐﻮ ﮔﮯ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺗﯿﻨﻮﮞ ﺷﺮﻃﯿﮟ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮ ﻟﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﮯ ﮐﺮ ﮔﮭﺮ ﺁﮔﯿﺎ ﺟﮩﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﮐﺎﻡ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮐﺎﻡ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ۔ 

ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻡ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﻭﺍﭘﺲ ﺁﯾﺎ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻋﺎﻡ ﻣﺰﺩﻭﺭﻭﮞ ﺳﮯ ﺩﻭﮔﻨﺎ ﮐﺎﻡ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﺨﻮﺷﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﺟﺮﺕ ﺍﺩﺍ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﭼﻼ گیا، ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﮐﯽ ﺗﻼﺵ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺍﺱ ﭼﻮﺭﺍﮨﮯ ﭘﺮ ﮔﯿﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﻭﮦ ﻣﺠﮭﮯ ﻧﻈﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﯾﺎ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻣﺰﺩﻭﺭﻭﮞ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﮨﻔﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﻣﺰﺩﻭﺭﯼ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ باقی دن اللہ تعالی کی عبادت میں گزارتا ہے، ﯾﮧ ﺳﻦ ﮐﺮ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﺠﮫ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻋﺎﻡ ﻣﺰﺩﻭﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﮐﻮﺋﯽ خاص ﺁﺩﻣﯽ ﮨﮯ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﭘﺘﮧ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺟﮕﮧ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﻟﯿﭩﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺳﺨﺖ ﺑﺨﺎﺭ ﺗﮭﺎ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺗﻮ ﯾﮩﺎﮞ ﺍﺟﻨﺒﯽ ﮨﮯ، ﺗﻨﮩﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ ﺍﮔﺮ ﭘﺴﻨﺪ ﮐﺮﻭ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﯿﺮﮮ ﮔﮭﺮ ﭼﻠﻮ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﮐﺎ ﻣﻮﻗﻊ ﺩﻭ، ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﺍﺻﺮﺍﺭ ﭘﺮ ﻣﺎﻥ ﮔﯿﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﯾﮏ ﺷﺮﻁ ﺭﮐﮭﯽ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮯ ﮔﺎ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﯾﮧ ﺷﺮﻁ ﻣﻨﻈﻮﺭ ﮐﺮ ﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﻟﮯ ﺁﯾﺎ۔

ﻭﮦ ﺗﯿﻦ ﺩﻥ ﻣﯿﺮﮮ ﮔﮭﺮ ﻗﯿﺎﻡ ﭘﺬﯾﺮ ﺭﮨﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻧﮧ ﺗﻮ ﮐﺴﯽ ﭼﯿﺰ ﮐﺎ ﻣﻄﺎﻟﺒﮧ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﭼﯿﺰ ﻟﮯ ﮐﺮﮐﮭﺎﺋﯽ، ﭼﻮﺗﮭﮯ ﺭﻭﺯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺨﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺷﺪﺕ ﺁﮔﺌﯽ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺎﺱ ﺑﻼﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺏ ﻣﯿﺮﺍ ﺁﺧﺮﯼ ﻭﻗﺖ ﻗﺮﯾﺐ ﺁﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﻟﮩﺬﺍ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﻣﺮ ﺟﺎﺅﮞ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﺱ ﻭﺻﯿﺖ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﮐﺮﻧﺎ ﮐﮧ ﺟﺐ ﻣﯿﺮﯼ ﺭﻭﺡ ﺟﺴﻢ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﮔﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺭﺳﯽ ﮈﺍﻟﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﮔﮭﺴﯿﭩﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﻟﮯ ﺟﺎﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﺍﺭﺩﮔﺮﺩ ﭼﮑﺮ ﻟﮕﻮﺍﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺻﺪﺍ ﺩﯾﻨﺎ ﮐﮧ ﻟﻮﮔﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﻟﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺏ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﯽ ﻧﺎﻓﺮﻣﺎﻧﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﺎ ﯾﮧ ﺣﺸﺮ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ، ﺷﺎﯾﺪ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﻣﯿﺮﺍ ﺭﺏ ﻋﺰﻭﺟﻞ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮ ﺩﮮ۔ 

ﺟﺐ ﺗﻢ ﻣﺠﮭﮯ ﻏﺴﻞ ﺩﮮ ﭼﮑﻮ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻧﮩﯽ ﮐﭙﮍﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺩﻓﻦ ﮐﺮ ﺩﯾﻨﺎ ﭘﮭﺮ ﺑﻐﺪﺍﺩ ﻣﯿﮟ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﮨﺎﺭﻭﻥ ﺍﻟﺮﺷﯿﺪ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺟﺎﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﺠﯿﺪ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮕﻮﭨﮭﯽ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﺍ ﯾﮧ ﭘﯿﻐﺎﻡ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﻨﺎ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﺰﻭﺟﻞ ﺳﮯ ﮈﺭﻭ ﮐﮩﯿﮟ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮧ ﮨﻮ ﮐﮧ ﻏﻔﻠﺖ ﺍﻭﺭ ﻧﺸﮯ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺕ ﺁﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﭘﭽﮭﺘﺎﻧﺎ ﭘﮍﮮ ﻟﯿﮑﻦ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﺣﺎﺻﻞ ﻧﮧ ﮨﻮﮔﺎ۔

ﻭﮦ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﻣﺠﮭﮯ ﯾﮧ ﻭﺻﯿﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮐﺮ ﮔﯿﺎ، ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﻮﺕ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮐﺎﻓﯽ ﺩﯾﺮ ﺗﮏ ﺁﻧﺴﻮ ﺑﮩﺎﺗﺎ ﺭﮨﺎ ﺍﻭﺭ ﻏﻤﺰﺩﮦ ﺭﮨﺎ، ﭘﮭﺮ ﻧﮧ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻭﺻﯿﺖ ﭘﻮﺭﯼ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﯾﮏ ﺭﺳﯽ ﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮔﺮﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻟﻨﮯ ﮐﺎ ﻗﺼﺪ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﮐﻤﺮﮮ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﮐﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﻧﺪﺍ ﺁﺋﯽ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮔﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺭﺳﯽ ﻣﺖ ﮈﺍﻟﻨﺎ، ﮐﯿﺎ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﺰﻭﺟﻞ ﮐﮯ ﺍﻭﻟﯿﺎﺀ ﺳﮯ ﺍﯾﺴﺎ ﺳﻠﻮﮎ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ؟

ﯾﮧ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﻦ ﮐﺮ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﺪﻥ ﭘﺮ ﮐﭙﮑﭙﯽ ﻃﺎﺭﯼ ﮨﻮﮔﺌﯽ، ﯾﮧ ﺳﻨﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺅﮞ ﮐﻮ ﺑﻮﺳﮧ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﻔﻦ ﻭﺩﻓﻦ ﮐﺎﺍﻧﺘﻈﺎﻡ ﮐﺮﻧﮯ چلا گیا، ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﺪﻓﯿﻦ ﺳﮯ ﻓﺎﺭﻍ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻗﺮﺁﻥ ﭘﺎﮎ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮕﻮﭨﮭﯽ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﮐﮯ ﻣﺤﻞ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺭﻭﺍﻧﮧ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ، ﻭﮨﺎﮞ ﺟﺎ ﮐﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﮐﺎ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺍﯾﮏ ﮐﺎﻏﺬ ﭘﺮ ﻟﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﻞ ﮐﮯ ﺩﺍﺭﻭﻏﮧ ﺳﮯ ﺍﺱ ﺳﻠﺴﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﯽ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺟﮭﮍﮎ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺪﺭ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺎﺱ ﺑﭩﮭﺎ ﻟﯿﺎ، ﺁﺧﺮِ ﮐﺎﺭ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﺭﺑﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﻃﻠﺐ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﮐﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﻨﺎ ﻇﺎﻟﻢ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺑﺮﺍﮦ ﺭﺍﺳﺖ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﺭﻗﻌﮯ ﮐﺎ ﺳﮩﺎﺭﺍ ﻟﯿﺎ؟

ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺁﭖ ﮐﺎ ﺍﻗﺒﺎﻝ ﺑﻠﻨﺪ ﮐﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﻇﻠﻢ ﮐﯽ ﻓﺮﯾﺎﺩ ﻟﮯ ﮐﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﯾﺎ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﯾﮏ ﭘﯿﻐﺎﻡ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﻮﺍ ﮨﻮﮞ، ﺧﻠﯿﻔﮧ ﻧﮯ ﺍﺱ ﭘﯿﻐﺎﻡ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻭﮦ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﺠﯿﺪ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮕﻮﭨﮭﯽ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺭﮐﮫ ﺩﯼ، ﺧﻠﯿﻔﮧ ﻧﮯ ﺍﻥ ﭼﯿﺰﻭﮞ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯽ ﮐﮩﺎ ﯾﮧ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﺗﺠﮭﮯ ﮐﺲ ﻧﮯ ﺩیں؟ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﮔﺎﺭﺍ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﺰﺩﻭﺭ ﻧﮯ۔

ﺧﻠﯿﻔﮧ ﻧﮯ ﺍﻥ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﮐﻮ ﺗﯿﻦ ﺑﺎﺭ ﺩﮨﺮﺍﯾﺎ ''ﮔﺎﺭﺍ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﻭﺍﻻ ...ﮔﺎﺭﺍ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﻭﺍﻻ ...ﮔﺎﺭﺍ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﻭﺍﻻ۔۔۔ ﺍﻭﺭ ﺭﻭ ﭘﮍﺍ، ﮐﺎﻓﯽ ﺩﯾﺮ ﺭﻭﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﻭﮦ ﮔﺎﺭﺍ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺍﺏ ﮐﮩﺎﮞ ﮨﮯ؟ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﻭﮦ ﻣﺰﺩﻭﺭ ﻓﻮﺕ ﮨﻮ ﭼﮑﺎ ﮨﮯ، ﯾﮧ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﺑﮯ ﮨﻮﺵ ﮨﻮ ﮐﺮ ﮔﺮ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻋﺼﺮ ﺗﮏ ﺑﮯ ﮨﻮﺵ ﺭہا، ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﻭ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﻭﮨﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺭﮨﺎ ﭘﮭﺮ ﺟﺐ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﮐﻮ ﮐﭽﮫ ﺍﻓﺎﻗﮧ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﮐﯿﺎ کہ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻭﻓﺎﺕ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﺗﻢ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺗﮭﮯ؟ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺛﺒﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺳﺮ ﮨﻼ ﺩﯾﺎ ﺗﻮ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺗﺠﮭﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻭﺻﯿﺖ ﺑﮭﯽ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ؟ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﮐﯽ ﻭﺻﯿﺖ ﺑﺘﺎﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﭘﯿﻐﺎﻡ ﺑﮭﯽ ﺩﮮ ﺩﯾﺎ ﺟﻮ ﺍﺱ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﻧﮯ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﭼﮭﻮﮌﺍ ﺗﮭﺎ۔

ﺟﺐ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺳﺎﺭﯼ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺳﻨﯿﮟ ﺗﻮ ﻣﺰﯾﺪ ﻏﻤﮕﯿﻦ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺮ ﺳﮯ ﻋﻤﺎﻣﮧ ﺍﺗﺎﺭ ﺩﯾﺎ، ﺍﭘﻨﮯ ﮐﭙﮍﮮ ﭼﺎﮎ ﮐﺮ ﮈﺍﻟﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﺍﮮ ﻣﺠﮭﮯ ﻧﺼﯿﺤﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ، ﺍﮮ ﻣﯿﺮﮮ ﺯﺍﮨﺪ ﻭ ﭘﺎﺭﺳﺎ، ﺍﮮ ﻣﯿﺮﮮ ﺷﻔﯿﻖ، ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﮐﮯ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﺍﻟﻘﺎﺑﺎﺕ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻣﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﮐﻮ ﺩﺋﻴﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﺁﻧﺴﻮ ﺑﮭﯽ ﺑﮩﺎﺗﺎ ﺭہا، ﯾﮧ ﺳﺎﺭﺍ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﻣﯿﺮﯼ ﺣﯿﺮﺍﻧﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﺰﯾﺪ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﺍﯾﮏ ﻋﺎﻡ ﺳﮯ ﻣﺰﺩﻭﺭ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﻏﻢ ﺯﺩﮦ ﮐﯿﻮﮞ ﮨﮯ؟ 

ﺟﺐ ﺭﺍﺕ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﻧﮯ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻗﺒﺮ ﭘﺮ ﻟﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﻇﺎﮨﺮ ﮐﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﻮ ﻟﯿﺎ، ﺧﻠﯿﻔﮧ ﭼﺎﺩﺭ ﻣﯿﮟ ﻣﻨﮧ ﭼﮭﭙﺎﺋﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﭼﻠﻨﮯ ﻟﮕﺎ، ﺟﺐ ﮨﻢ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﻗﺒﺮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮐﺮ ﮐﮯ ﮐﮩﺎ ﻋﺎﻟﯽ ﺟﺎﮦ ﯾﮧ ﺍﺱ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﮐﯽ ﻗﺒﺮ ﮨﮯ، ﺧﻠﯿﻔﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻗﺒﺮ ﺳﮯ ﻟﭙﭧ ﮐﺮ ﺭﻭﻧﮯ لگا ﭘﮭﺮ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﺭﻭﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻗﺒﺮ ﮐﮯ ﺳﺮﮨﺎﻧﮯ ﮐﮭﮍﺍ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﯾﮧ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﻣﯿﺮﺍ ﺑﯿﭩﺎ ﺗﮭﺎ، ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﯽ ﭨﮭﻨﮉﮎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﺟﮕﺮ ﮐﺎ ﭨﮑﮍﺍ ﺗﮭﺎ، ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﯾﮧ ﺭﻗﺺ ﻭ ﺳُﺮﻭر ﮐﯽ ﻣﺤﻔﻞ ﻣﯿﮟ ﮔﻢ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻣﮑﺘﺐ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﺑﭽﮯ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺁﯾﺖ ﮐﺮﯾﻤﮧ ﺗﻼﻭﺕ ﮐﯽ ''ﺍَﻟَﻢْ ﯾَﺎۡﻥِ ﻟِﻠَّﺬِﯾۡﻦَ ﺍٰﻣَﻨُﻮۡۤﺍ ﺍَﻥۡ ﺗَﺨْﺸَﻊَ ﻗُﻠُﻮۡﺑُﮩُﻢْ ﻟِﺬِﮐْﺮِ ﺍﻟﻠﮧ، ﮐﯿﺎ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﺑﮭﯽ ﻭﮦ ﻭﻗﺖ نہیں ﺁﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺩﻝ ﺟﮭﮏ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﯾﺎﺩ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ" ﺟﺐ ﺍﺱ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺁﯾﺖ ﺳﻨﯽ ﺗﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﮯ ﺧﻮﻑ ﺳﮯ ﺗﮭﺮ ﺗﮭﺮ ﮐﺎﻧﭙﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺁﻧﺴﻮﺅﮞ ﮐﯽ ﺟﮭﮍﯼ ﻟﮓ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﭘﮑﺎﺭ ﭘﮑﺎﺭ ﮐﺮ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ "ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ؟ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ؟'' ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻣﺤﻞ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻞ ﮔﯿﺎ۔ 

ﺍﺱ ﺩﻥ ﺳﮯ ﮨﻤﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﺒﺮ ﻧﮧ ﻣﻠﯽ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮧ ﺁﺝ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻭﻓﺎﺕ ﮐﯽ ﺧﺒﺮ ﺩﯼ.....
*(ﺣﮑﺎﯾﺎﺕ ﺍﻟﺼﺎﻟﺤﯿﻦ , ﺹ 67)



_سب دوست ایک بار درودشریف پڑھ لیں_
_ایک بار درودشریف پڑھنے سے_ 
_ﷲ تعالیٰ دس مرتبہ رحمت فرماتے ہے_

Sunday, August 21, 2022

ایک بہن کی دکھ بھری سچی کہانی

*ایک دکھ بھری سچی کہانی:*
 ایک بہن کہتی ہیں: ایک دن میں اپنے گھر کی صفائی کر رہی تھی، اتنے میں میرا بیٹا   آیا اور شیشے سے ایک شاہکار (تحفہ )گرا دیااور وہ ٹوٹ گیا۔

 میں اس سے بہت ناراض تھی کیونکہ یہ بہت مہنگاتھااور میری ماں نے مجھے دیاتھااور میں اسے پسند کرتی تھی اور اسے رکھنا چاہتی تھی۔
 میں نے غصے سے اسے بلایا اور کہا۔
 (میرا رب ایسی دیوار گرائے جو تمہاری ہڈیاں توڑ دے)

 بہن کہتی ہیں:
 سال گزر گئے اور میں اس پکار اس بدعا کو بھول گئی اور مجھے اس کی پرواہ نہیں تھی، اور نہ ہی مجھے معلوم تھا کہ وہ آسمان پر چڑھ گئی ہے!
 میرا بیٹا اپنے بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ پلا بڑھا اور وہ میرے دل میں میرے بیٹوں میں سب سے زیادہ پیارا تھا 
 میں اس کوہوا لگنے سے بھی ڈرتی تھی وہ میرے لیے اپنے بھائیوں اور بہنوں سے زیادہ نیک تھا۔

 اس نے تعلیم حاصل کی، گریجویشن کیا، ملازمت حاصل کی، اور میں اس کے لیے بیوی تلاش کر رہی تھی۔
 اس کے والد کی ایک پرانی عمارت تھی، اور وہ اسے گرا کر دوبارہ تعمیر کرنا چاہتے تھے۔
 میرا بیٹا اپنے والد کے ساتھ عمارت کی طرف گیا اور مزدور منہدم کرنے کی تیاری کر رہے تھے، اور اپنے کام کے درمیان میرا بیٹا اپنے والد سے دور چلا گیا اور کارکن نے اسے نوٹس نہیں کیا تو دیوار اس پر گر گئی!!
 میرا بیٹا چیخا اور پھر اس کی آواز غائب ہوگئی۔
 کارکن رک گئے اور سب پریشان اور خوف زدہ ہو گئے!!

 انہوں نے بڑی مشکل سے اس سے دیوار ہٹائی، اور ایمبولینس آئی، اوراس کا جسم لے جانے کے قابل نہ رہاتھاکیونکہ شیشے کی طرح گر کر ٹوٹ گیاتھا، تو انہوں نے اسے بڑی مشکل سے اٹھایا اور انتہائی نگہداشت میں منتقل کیا!!

 اور جب اس کے والد نے مجھے خبرکی تو میں بے ہوش ہو گئی اور جب مجھے ہوش آیا تو گویا اللہ تعالیٰ نے میری آنکھوں کے سامنے وہ گھڑی بحال کر دی ہو جس میں میں نے بچپن میں کئی سال پہلے اس کے لیے بددعا کی تھی اور مجھے وہ بددعا یاد آ گئی۔ ، اور میں روتی رہی اور روتی رہی یہاں تک کہ میں دوبارہ ہوش کھو بیٹھی

 جب ہسپتال میں مجھے افاقہ ہوا، تو میں نے اپنے بیٹے کو دیکھنے کے لیے کہا؟
 میں نے اسے دیکھا، اور کاش میں نے اسے اس حالت میں نہ دیکھا ہوتا!

 ان لمحوں میں دل کی دھڑکن رک گئی اور میرے بیٹے نے آخری سانس لی۔
 میں نے روتے ہوئے کہا:
 کاش وہ دوبارہ زندہ ہو جائے، گھر کے تمام فن پاروں کو توڑ دے، بس میں اسے نہ کھووں۔

 کاش میں گونگی ہوجاتی اور اس کو بددعانہ دیتی۔

 کاش کاش کاش، لیکن کاش لفظ کا وقت پورا ہوچکا تھا!

 
 ایک شخص عبداللہ بن المبارک رحمہ اللہ کے پاس اپنے بیٹے کی نافرمانی کی شکایت کرنے آیا!!
 ابن مبارک نے اس سے پوچھا: کیا تم نے اس کے لیے بددعا کی؟
 اس نے کہا: ہاں
 اس نے کہا: جاؤ، تم نےہی اسے خراب کر دیاہے۔

 *ہر ماں اور باپ کے لیے میرا پیغام:*

 اپنے بچوں کوغصے میں بددعاکرنے میں جلدی نہ کریں۔
 شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگیں
 اپنی زبانوں سے وعدہ کریں کہ وہ اپنے بچوں کے لیے کامیابی اور رہنمائی کے لیے دعا کریں، ان کو بددعا نہ دیں۔

 اور جان لیں کہ اپنے بچوں کے لیے بددعا کرنے سے ان میں فساد، ضد اور نافرمانی ہی بڑھ جاتی ہے۔
 اس نافرمانی کی شکایت کرنے والے سب سے پہلے آپ ہیں جنہوں نے ان کے لیے بددعا کرنے میں جلدی کی۔
 اپنے بچوں کو بددعا نہ دیں بلکہ اللہ سے ان کی اصلاح اور رہنمائی کے لیے دعا کریں۔

 اور جب بھی آپ اپنے بچوں کو خوش ہوتے اور کھیلتے ہوئے پائیں تو ان کے لیے یہ دعا مانگیں:
 (اے اللہ، میں تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ انہیں جنت میں خوش رکھ، جیسا کہ تو نے انہیں دنیا میں خوش رکھاہے. 


*کاش کہ  یہ بات تیرے دل میں اتر جائیں*_


  

Saturday, August 20, 2022

ہار، نابینا اور نوجوان

ہار، نابینا اور نوجوان 
     
     ابن عقیلؒ اپنا واقعہ لکھتے ہیں کہ میں بہت ہی زیادہ غریب آدمی تھا۔ ایک مرتبہ میں نے طواف کرتے ہوئے ایک ہار دیکھا جو بڑا قیمتی تھا۔ میں نے وہ ہار اٹھالیا۔ میرا نفس چاہتا تھا کہ میں اسے چھپالوں لیکن میرادل کہتا تھا، ہرگز نہیں، یہ چوری ہے، بلکہ دیانتداری کا تقاضا یہ ہے کہ جس کا یہ ہار ہے اسے میں واپس کر دوں۔ چنانچہ میں نے مطاف میں کھڑے ہو کر اعلان کردیا کہ اگر کسی کا ہار گم ہوا ہو تو آکر مجھ سے لے لے۔
کہتے ہیں کہ ایک نابینا آدمی آیا اور کہنے لگا کہ یہ ہار میرا ہے اور میرے تھیلے میں سے گرا ہے۔ 
نابینا نے دعا دی اور چلاگیا۔ 
کہتے ہیں کہ میں دعائیں بھی مانگتاتھا کہ اللہ! میرے لیے کوئی رزق کا بندوبست کردے۔ 
اللہ کی شان دیکھیں کہ میں وہاں سے ’’ہلہ‘‘ آ گیا۔ یہ ایک بستی کانام ہے۔ وہاں کی ایک مسجد میں گیاتو پتہ چلا کہ چند دن پہلے امام صاحب فوت ہو گئے تھے۔ لوگوں نے مجھے کہا کہ نماز پڑھا دو۔ جب میں نے نماز پڑھائی تو انہیں میرا نماز پڑھانا اچھا لگا۔ وہ کہنے لگے، تم یہاں امام کیوں نہیں بن جاتے۔ میں نے کہا، بہت اچھا۔ میں نے وہاں امامت کے فرائض سرانجام دینے شروع کردیے۔ تھوڑے  دنوں کے بعد پتہ چلا کہ جو امام صاحب پہلے فوت ہوئے تھے ان کی ایک جواں سال بیٹی ہے۔ وہ وصیت کر گئے تھے کہ کسی نیک بندے سے اس کا نکاح کر دینا۔ مقتدی لوگوں نے مجھ سے کہا، جی اگر آپ چاہیں تو ہم اس یتیم بچی کا آپ سے نکاح کر دیتے ہیں۔ میں نے کہا، جی بہت اچھا، چنانچہ انہوں نے اس کے ساتھ میرا نکاح کر دیا۔شادی کے کچھ عرصہ کے بعد میں نے اپنی بیوی کو دیکھا کہ اس کے گلے میں وہی ہار تھا جو میں نے طواف کے دوران ایک نابینا آدمی کو لوٹایا تھا۔اسے دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔میں نے پوچھا، یہ ہار کس کا ہے؟ اس نے کہا، یہ میرے ابو نے مجھے دیا تھا۔میں نے کہا، آپ کے ابو کون تھے؟اس نے کہا، وہ عالم تھے، اس مسجد میں امام تھے اور نابینا تھے۔تب مجھے پتہ چلا کہ اس کے ابو وہی تھے جن کو میں نے وہ ہار واپس کیاتھا۔ میں نے اس کو بتایا کہ یہ ہار تو میں نے ان کو اٹھا کر دیا تھا۔ وہ کہنے لگی کہ آپ کی بھی دعا قبول ہو گئی اور میرے ابو کی بھی دعا قبول ہوگئی۔میں نے کہا، وہ کیسے؟ اس نے کہا کہ آپ کی دعا تو اس طرح قبول ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو گھر بھی دیا، گھر والی بھی دی اور رزق بھی دیا اور میرے ابو کی دعا اس طرح قبول ہوئی کہ جب وہ ہار لے کر واپس آئے تو وہ دعا مانگتے تھے کہ اے اللہ! ایک امین (دیانت دار) شخص نے میرا ہار مجھے لوٹایا ہے، اے اللہ! ایسا ہی امین شخص میری بیٹی کے لیے خاوند کے طور پر عطا فرما دے۔ اللہ نے میرے والد کی دعا بھی قبول کر لی اور آپ کو میرا خاوند بنا دیا

منقول
۔
۔
۔
     
     

Friday, August 19, 2022

صلاح الدین کے والد کا حیرت انگیز واقعہ

گورنر نجم الدین ایوب کافی عمر ہونے تک شادی سے انکار کرتا رہا۔
ایک دن اس کے بھائی اسدالدین شیر کوہ نے اس سے کہا ۔
" بھائی ! تم شادی کیوں نہیں کرتے؟ "
نجم الدین نے جواب دیا ۔
" میں کسی کو اپنے قابل نہیں سمجھتا. "
یہ سن کر اسدالدین نے کہا ۔
" میں آپ کے لیے رشتہ مانگوں ؟ "
" کس کا ؟ "
" ملک شاہ بن سلطان محمد بن ملک شاہ سلجوقی کی بیٹی کا یا وزیر المک کی بیٹی کا....؟ "
یہ سن کر نجم الدین بولا ۔
" وہ میرے لائق نہیں ۔۔۔۔۔۔ "
اسدالدین دھک سے رہ گیا ۔
" پھر کون آپ کے لائق ہوگی ؟ "
نجم الدین نے جواب دیا ۔
" مجھے ایسی نیک بیوی چاہیے ،جو میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے جنت میں لے جائے اور اس سے میرا ایک ایسا بیٹا پیدا ہو ، جس کی وہ بہترین تربیت کرے ، وہ شاہ سوار ہو اور مسلمانوں کا قبلہ اول واپس لے.... "
اسدالدین کو نجم الدین کی بات پسند نہ آئی اور اس نے کہا ۔
" ایسی لڑکی آپ کو کہاں ملے گی؟ "
نجم الدین نے جواب دیا۔
" نیت میں خلوص ہو ، تو اللہ نصیب کرے گا.... "
یہ سن کر اسد الدین خاموشی سے اسے تکنے لگا ۔
ایک دن نجم الدین مسجد میں تکریت کے ایک شیخ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ۔ ایک لڑکی آئی اور پردے کے پیچھے سے ہی شیخ کو آواز دی ۔
شیخ نےلڑکی سے بات کرنے کے لیے نجم الدین سے معذرت کی. نجم الدین سنتا رہا کہ شیخ لڑکی سے کیا کہ رہا ہے.
شیخ نے لڑکی سے کہا۔
" تم نے اس لڑکے کا رشتہ کیوں مسترد کردیا ، جس کو میں نے بھیجا تھا....؟ "
" اے ہمارے شیخ اور مفتی ! وہ لڑکا واقعی خوب صورت اور رتبے والا تھا ، مگر میرے لائق نہیں تھا
شیخ حیرت سے بولا ۔
" کیا مطلب ۔۔۔۔۔۔ تم کیا چاہتی ہو ؟"
" شیخ ! مجھے ایک ایسا لڑکا چاہیے ، جو میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے جنت میں لے جائے اور اس سے مجھے اللہ ایک ایسا بیٹا دے ، جو شاہسوار ہو اور مسلمانوں کا قبلہ اول واپس لے.... "
نجم الدین حیران رہ گیا ، کیوں کہ جو وہ سوچتا تھا ، وہی یہ لڑکی بھی سوچتی تھی ۔
نجم الدین جس نے حکمرانوں اور وزیروں کی بیٹیوں کے رشتے ٹھکرائے تھے ، شیخ سے کہا۔
" اس لڑکی سے میری شادی کروا دیں.... "
" یہ محلے کے سب سے فقیر گھرانے کی لڑکی ہے.... "
یہ سن کر نجم الدین نے کہا۔
" میں یہی چاہتا ہوں . "
پھر نجم الدین نے اس فقیر متقی لڑکی سے شادی کر لی اور اسی سے وہ شاہسوار پیدا ہوا ، جسے دنیا "سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ" کے نام سے جانتی ہے .
جنھوں نے مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس کو آزاد کروایا....

ایک آخری بات عرض کرتا چلوں کے اگر کبھی کوئی  قول، واقعہ،سچی کہانی یا تحریر وغیرہ اچھی لگا کرئے تو مطالعہ کے بعد مزید تھوڑی سے زحمت فرما کر اپنے دوستوں سے بھی شئیر کر لیا کیجئے، آپ کی شیئر کردا تحریر ہزاروں لوگوں کے لیے سبق آموز ثابت ہو سکتی ہے..

مجھے زندگی میں کسی نے لاجواب نہیں کیا سوائے ایک عورت کے*

*مجھے زندگی میں کسی نے لاجواب نہیں کیا سوائے ایک عورت کے*

ایک مصری عالم کا کہنا تھا کہ مجھے زندگی میں کسی نے لاجواب نہیں کیا سوائے ایک عورت کے جس کے ہاتھ میں ایک تھال تھا جو ایک کپڑے سے ڈھانپا ہوا تھا میں نے اس سے پوچھا تھال میں کیا چیز ہے۔
وہ بولی اگر یہ بتانا ہوتا تو پھر ڈھانپنے کی کیا ضرورت تھی۔
پس اس نے مجھے شرمندہ کر ڈالا۔

یہ ایک دن کا حکیمانہ قول نہیں بلکہ ساری زندگی کی دانائی کی بات ہے۔
کوئی بھی چیز چھپی ہو تو اس کے انکشاف کی کوشش نہ کرو۔
کسی بھی شخص کا دوسرا چہرہ تلاش کرنے کی کوشش نہ کریں۔
خواہ آپ کو یقین ہو کہ وہ بُرا ہے یہی کافی ہے کہ اس نے تمہارا احترام کیا اور اپنا بہتر چہرہ تمہارے سامنے پیش کیا بس اسی پر اکتفا کرو۔
ہم میں سے ہر کسی کا ایک بُرا رخ ہوتا ہے جس کو ہم خود اپنے آپ سے بھی چھپاتے ہیں۔
اللہ تعالٰی دنیا و آخرت میں ہماری پردہ پوشی فرمائے ورنہ

جتنے ہم گناہ کرتے ہیں اگر ہمیں ایک دوسرے کا پتہ چل جائے تو ہم ایک دوسرے کو دفن بھی نہ کریں۔

جتنے گناہ ہم کرتے ہیں اس سے ہزار گنا زیادہ کریم رب ان پر پردے فرماتا ہے. کوشش کریں کہ کسی کا عیب اگر معلوم بھی ہو تو بھی بات نہ کریں. آگے کہیں آپ کی وجہ سے اسے شرمندگی ہوئی تو کل قیامت کے دن اللہ پوچھ لے گا کہ جب میں اپنے بندے کی پردہ پوشی کرتا ہوں تو تم نے کیوں پردہ فاش کیا؟

Thursday, August 18, 2022

*اپنی تاریخ پڑھو۔۔۔ صرف ڈرامے نہ دیکھتے رہ جاؤ۔

*اپنی تاریخ پڑھو۔۔۔ صرف ڈرامے نہ دیکھتے رہ جاؤ۔   صرف گانے نہ سنتے رہ جاؤ*۔۔۔ )"*

*🍁•••═بسم تعالیٰ◉༺══•••🍁


*اَلسَّــــلَامُ عَلَيْــــكُمْ وَرَحْــــمَـةُ اللــّٰــهِ وَ بَرَكَــــاتُـهُ

✍ *سلسلہ تحریر*
🎗️🎗️🎗️

*اپنی تاریخ پڑھو۔۔۔ صرف ڈرامے نہ دیکھتے رہ جاؤ۔   صرف گانے نہ سنتے رہ جاؤ*۔۔۔ )"
*بنو امیہ کا سب سے حسین بادشاہ سلمان بن عبدالملک*

سب سے حسین ۔۔۔ 42 سال کی عمر ۔۔ جوانی ۔۔  جب ا
سکی میت کو قبر کے قریب کیا گیا تو لاش ہلنے لگی ۔۔ تو انکے بیٹوں نے کہا ۔۔ ہمارے ابو زندہ ہیں ۔۔ سکتہ ہو گیا ہوگا۔ ابھی زندہ ہیں ۔۔

*عمر بن عبدالعزیزؒ* فرمانے لگے ۔۔ ارے بھتیجو۔۔۔! ذندہ نہیں ہے ۔۔۔ قبر کا عذاب جلدی شروع ہو گیا ہے ۔۔ چھپاؤ جلدی چھپاؤ ۔۔۔ *عمر بن عبدالعزیزؒ* جس تخت پر بیٹھے ۔۔۔ اس پر سلمان تھا ۔۔۔ اس پر ولید تھا ۔۔۔ اس پر عبدالملک تھا ۔۔۔ ان تینوں نے اپنے من کو راضی کیا ۔۔۔ *عمر بن عبدالعزيزؒ* نے اپنے رب کو راضی کیا ۔۔۔ جب *عمر بن عبدالعزيزؒ کا وقت آیا ۔ انہوں نے رضا بن ہیبہ سے فرمایا کہ میں نے عبدالملک بن مروان (چاچا ۔ سسر ) انکی بیٹی فاطمہ سے شادی ہوئی تھی ۔۔۔ میں نے انکو (عبدالملک بن مروان) کو قبر میں اتارا ۔۔۔ کفن کی گرہ کھول کر دیکھا تو انکا چہرہ قبلہ سے ہٹ چکا تھا اور رنگ کالا سیاہ پڑ چکا تھا ۔۔۔ عبدالملک بن مروان گورا چٹا تھا ۔۔۔ گال سرخ ۔۔۔ آخر کالا ۔۔۔ پھر میں نے ولید کو قبر میں اتارا ۔۔ اسکا بیٹا۔۔۔ اسنے 10 سال حکومت کی ۔۔ اسنے 21 سال حکومت کی (ولید بن عبدالملک) ۔۔۔ میں نے اس کے کفن کی گرہ کو کھولا ۔۔۔ تو اسکا رنگ سیاہ ہو چکا تھا ۔۔ قبلہ کی طرف سے چہرہ ہٹ چکا تھا ۔۔۔ پھر سلمان کے کفن کو کھولا ۔۔۔ اسکا بھی چہرہ قبلہ سے ہٹ چکا تھا ۔۔ رنگ سیاہ پڑ چکا تھا ۔۔۔ اب میں جا رہا ہوں ۔۔۔ مجھے دیکھنا ۔۔۔ پہلے تینوں نے حکومت کی پوجا کی۔۔۔  عمر بن عبدالعزیزؒ* نے *اللّٰه تعالیٰ* کی عبادت کی ۔۔۔ انہوں نے ایک بڑا عجیب خطبہ دیا ۔۔۔ جب خلیفہ بنے ۔۔۔
*اے لوگو*۔۔۔!
*بچپن میں شعر و شاعری کا شوق تھا تو میں شاعر بنا ۔۔۔ تھوڑی سی اٹھان ہوئی تو علم کا شوق ہوا میں نے علم حاصل کیا ۔۔۔ جوان ہوا تو فاطمہ بنت عبدالملک سے عشق ہوا ۔۔۔ میں نے ان سے شادی کی ۔۔۔ اب اللّٰه نے مجھکو حکومت دے دی ہے ۔۔۔ اب تم دیکھو گئے میں اس سے اپنے اللّٰه کو راضی کروں گا* ۔۔۔

ہمارے حکمران تو ووٹ سے آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں 4-5 سال کے بعد ۔۔۔
انکے وراثت میں حکومت آ رہی ہے ۔۔۔ اور 3 براعظم پر حکومت ہے ۔۔۔ اور ایسا رعب و دبدبہ ہے بنو امیہ کا کہ کوئی انکے سامنے سر نہیں اٹھا سکتا۔۔۔
3 *براعظم میں ذکواة لینے والا کوئی نہ بچا* ۔۔۔
3 *براعظم میں سوال کرنے والا کوئی نہ بچا*  ۔۔۔
3 *براعظم میں ظالم کوئی نہ بچا* ۔۔ 
3 *براعظم میں مظلوم کوئی نہ بچا* ۔۔۔ *لیکن خود کیسا رہا ۔۔۔ گھر آئے ۔۔۔ فاطمہ۔۔۔! بڑے اچھے دن گزرے ہیں ۔۔۔ اب امتحان ہے میں تیرا حق نہ ادا کر سکوں گا ۔۔۔ طلاق لینی ہے تو میں حاضر ہوں ۔۔۔ ساتھ دینا ہے تو پہلے اپنے حق معاف کرو ۔۔۔ سیاسی لحاظ سے فاطمہ جیسی عورت تاریخ میں نہیں آئیں ۔۔۔ سات نسبتوں سے یہ شہزادی ہیں ۔۔۔ فاطمہ کہنے لگیں ۔۔۔ عمر۔۔۔! میں نے سکھ کے دن آپکے ساتھ گزرے ہیں ۔۔۔ دکھ میں آپکو چھوڑ کر نہیں جاؤں گی ۔۔۔ جائیں میں نے سارے حق معاف کیے ۔۔۔ پھر عمر بن عبدالعزیزؒ* کی راتیں اور دن کیسے گزرے ۔۔۔ مصلے پر روتے روتے وہیں سو جاتے ۔۔۔ اور مصلے پر روتے روتے وھیں سے اٹھتے ۔۔۔ اپنی حکومت کو اللہ کی رضا کے لئے استعمال کیا ۔۔۔ کیسے استعمال کیا ۔۔۔ فاطمہ کا سارا زیور بیت المال میں ڈال دیا ۔۔۔ تنخواہ پر آگئے ۔۔۔ عید کا موقع آیا ۔۔۔ بچوں نے ماں سے کہا ۔۔۔ ہمیں کپڑے لے کر دو ۔۔۔ فاطمہ  کے پاس عمر کے ( *3 براعظموں کے خلیفہ* ) کے بچے آ رہے ہیں ۔۔۔ امی جان۔۔ ابا سے کہیں عید آ رہی ہے ۔۔۔ ہمیں عید کے کپڑے لے دیں۔۔۔ ابا تشریف لائے ۔۔۔ خزانے  لبا لب بھرے ہوئے ہیں گندم کے  ڈھیر کی طرح ۔۔۔ کہا *امیر المومنین* ۔۔۔ بچے کپڑے مانگ رہے ہیں ۔۔۔ کہا۔۔ فاطمہ میرے پاس تو پیسے نہیں کہاں سے کپڑے لے کر دوں؟ ۔۔۔ فاطمہ نے کہا ۔۔ پھر بچوں کا کیا کریں ۔ کہا مجھے بھی نہیں پتا کیا کروں ۔۔۔

اس سے پہلے تین حکمرانوں نے لوٹ مار کے بازار گرم کیے۔۔۔ ظلم کے بازار گرم کیے ۔۔۔ اور آج اسی تخت پر ایک شخص بیٹھا ہے جو اللّٰه کو راضی کرنے میں لگا ہوا ہے ۔۔۔

تو فاطمہ نے کہا ۔۔۔ آپ ایسا کریں ۔۔ اگلے مہینے کی تنخواہ ایڈوانس لے لیں ۔۔۔ اس سے ہم بچوں کے کپڑے لے لیتے اور میں مزدوری کر کے گھر کا خرچ چلا لوں گی ۔۔۔

"(ارے ۔۔۔
اپنی تاریخ پڑھو۔۔۔ صرف ڈرامے نہ دیکھتے رہ جاؤ۔   صرف گانے نہ سنتے رہ جاؤ۔۔۔ )"

پھر *عمر بن عبدالعزیزؒ* نے بلایا اپنے وزیر خزانہ مزآہم۔۔ اپنا غلام ۔۔۔ ہاں بھائی مزاہم۔۔ ہمیں بچوں کے کپڑے چاہئیں ۔۔۔ آگر آگلے مہینے کی تنخواہ ایڈوانس مل جائے ۔۔۔
وہ کہنے لگے ۔۔۔ *اے امیر المومنین* ۔۔۔ آپ مجھے لکھ کر دے دیں ۔۔۔ آپ اگلے مہینے تک ذندہ رہیں گے میں آپکو تنخواہ دے دیتا ہوں ۔۔۔
آپ نے سر جھکا لیا ۔۔ اٹھے۔۔ گھر آئے ۔۔۔ اپنی بیوی سے کہا ۔۔ فاطمہ بچوں سے کہہ دو انکا باپ انکو کپڑے نہیں لے کر دے سکتا ۔۔۔ عید کا دن آگیا ۔۔۔ بنو اممیہ کا خاندان ملنے آ رہا ہے ۔۔۔ سارے سردار ۔۔ سرداروں کے بیٹے ۔۔ اعلیٰ ملبوسات ۔۔۔ سب ملنے آ رہے ہیں ۔۔۔ تھوڑی دیر بعد دیکھا تو بچے بھی ملنے آ رہے ہیں ۔۔۔ *امیر المومنین کی حیثیت سے ۔۔۔ بچے باپ کو ملنے آ رہے ہیں ۔۔۔ اور انکے جسموں پر پرانا لباس ہے ۔۔۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز* نے ایک طرف دیکھا تو سرداروں کے بیٹے اور زرق برق پوشاکیں ۔۔۔ ایک طرف اپنے بچوں کو دیکھا ۔۔۔ جسموں پر پرانا لباس ۔۔۔

ارے اس باپ سے پوچھو۔۔۔ جو سب کچھ کر سکتا ہو لیکن پھر بھی اللّٰه کی رضا کی خاطر مٹھی بند کر لے ۔۔ کے نہیں میں نے حرام کی طرف نہیں جانا ۔۔۔

بچوں کو دیکھا تو انکھیں ڈگمگا گئیں ۔۔۔ فرمایا ۔۔ میرے بچو۔۔ آج تمہیں اپنے باپ سے گلہ تو ہو گا ۔۔۔ کہ آج ہمارے باپ نے ہمیں کپڑے ہی نہیں لے کر دیئے۔۔۔ انکے ایک بیٹے تھے عبدالملک ۔۔۔ وہ آپ سے بھی چار ہاتھ تھے ۔۔۔ وہ آپ سے پہلے ہی اللّٰه کو پیارے ہو گئے تھے ۔۔۔ کہنے لگے ۔۔ ابا جان ۔۔ آپکو عید مبارک ہو ۔۔۔ آج ہمارا سر بلند ہے ۔۔۔ ہم شرمندہ نہیں ہیں ۔۔۔ آپکو مبارک ہو ۔۔۔ ہمارے باپ نے قومی خزانے میں بددیانتی نہیں کی ۔۔۔ ہم شرمندہ نہیں ہیں ۔۔۔ انسانوں کو کپڑوں میں نہیں تولا جاتا ۔۔۔

(آج کا میرا دیس کا مالدار اتنا فقیر ہو گیا ہے ۔۔۔ اتنا چھوٹا ہو گیا ہے کہ وہ اپنا تعارف کروانے کے لیے 50 لاکھ کی گھڑی لیتا ہے ۔۔ 6 لاکھ کا جوتا لیتا ہے ۔۔ آج کی بیگم اتنی چھوٹی ہو گی ہے کہ وہ اپنے قد کو بڑا کرنے کے لیے 8-10 لاکھ کا ہینڈ بیگ لیتی ہے ۔۔۔ ارے میرے بھائی تو دو ٹکے کا بھی نہیں رہا اگر تم نے 50 لاکھ کی گھڑی سے خود کو بڑا بنایا ہے ۔۔۔ ارے اس دھوکہ سے نکلو۔۔ برینڈڈ ؟؟ برینڈڈ؟؟ برینڈڈ؟؟ جب تم اپنی ذات میں بے قیمت ہو تو الله کی قسم ۔۔۔ تمھاری گھڑی ۔ تمھارے بیگ ۔۔ تمھاری گاڑیاں تمہاری ذات اونچی نہیں کر سکتے ۔۔۔۔)

ایک دن *عمر بن عبدالعزیزؒ* اپنی بیگم فاطمہ سے کہنے لگے ۔۔ فاطمہ کچھ پیسے ہیں میرا انگور کھانے کو جی چاہ رہا ہے ۔۔۔
فاطمہ رونے لگیں اور کہنے لگیں ۔۔ *امیر المومنین* خزانے بھرے پڑے ہیں ۔۔ کیا ایک درہم کا بھی حق نہیں کہ لے کر آپ انگور کھا لیں ۔۔۔
فاطمہ کی بات سن کر تڑپ کر بولے ۔۔۔ فاطمہ میں جہنم نہیں برداشت کر سکتا۔۔۔
آج ہم اپنے گریبان میں جھانکیں صاحب اقتدار اپنی جگہ جس کو جتنا موقعہ ملتا ہے لوٹ کھسوٹ میں لگا ہوا ہے الله ہمارے حال پہ کرم فرمائے۔ دنیا بڑی خسارے کی جگہ ہے۔

*نوٹ* *_اس پیغام کو دوسروں تک پہنچائیے تاکہ الله کسی کی زندگی کو آپ کے ذریعے بدل دے_*

*اپنی تاریخ پڑھو۔۔۔ صرف ڈرامے نہ دیکھتے رہ جاؤ۔   صرف گانے نہ سنتے رہ جاؤ ۔*

*_بزم ریــختہ؛؛_*

شعراء

باپ اور چچا کی لڑائی میں اولاد کس کو مارے ؟

*باپ اور چچا کی لڑائی میں اولاد کس کو مارے ؟*

حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ بیٹھے تھے تو کسی نے صحابہ کرام ؓ کی آپس کی لڑائیوں کی بات چھیڑ دی تو انہوں نے فرمایا دیکھو اللہ کا کتنا کرم ہے کہ خدا تعالی نے ہمارے ہاتھوں کو ان لڑائیوں سے محفوظ رکھا ہم اس زمانے میں نہیں تھے اب ہمیں اپنی زبانوں پر کنٹرول رکھنا چاہیے ہمیں ان کے بارے میں زبان نہیں کھولنی چاہیے۔ انہوں نے پھر اس آدمی سے جو چاہتا تھا کہ اس پر بات چیت ہو پوچھا کہ دیکھو میں آپ سے پوچھتا ہوں آپ کا باپ اور چچا دونوں آپس میں لڑ پریں تو آپ باپ کے منہ پر جوتیاں ماریں گے یا چچا کے منہ پر ماریں گے۔ ؟ حاضرین اور اس نے کہا اس کے لیے تو دونوں قابل احترام ہیں وہ دونوں بھائی ہیں برابر کے ہیں وہ لڑیں گے بھی صلح بھی کریں گے۔ لیکن اب اولاد اٹھ کر اپنے باپ اور چچا کو مارنا پیٹنا شروع کر دے تو یہ اولاد یقیناً گناہگار ہوگی۔ 
(طبقات ابن سعد ص ۲۸۲ ج ۵)
اس لیے صحابہ میں اگر چہ درجات تھے لیکن صحابیت میں تو برابر تھے اس لیے صحابہ میں یا انبیاء علیہم السلام میں اگر اس قسم کی کوئی بات آئے تو اس کے بارے میں اہل سنت والجماعت یہی کہتے ہیں کہ بھائی یہ آپس کی ان کی باتیں ہیں اللہ تعالیٰ نے بعد میں ان کے دل کی کدورتیں بلکل صاف کر دیں۔ لیکن ہمیں ان میں سے کسی ایک کے خلاف کبھی زبان کھولنے کا حق نہیں ہے۔ باپ اور چچا سے زیادہ قابل احترام نبی اقدس ﷺ کے صحابہ ہیں اگر باپ اور چچا دونوں صلح کر لیں پھر اولاد میں سے کوئی اس لڑائی کو تازہ کرنا چاہے تو ہر آدمی کہے گا کہ یہ فتنہ پرواز ہے۔۔۔
(تریاق اکبر بزبان صفدر صفحہ 176)

Tuesday, August 16, 2022

رسالت اور قرآن کی عظمت اور تقدیس آخری سرخ لائن ہے

*عافیت اور جان کس کو عزیز نہیں ہوتی لیکن ۔۔۔۔۔*
رسالت اور مصحف کی عظمت و تقدیس آخری  سرخ لائن ہے، اسے عبور کرنے کی جو بھی کوشش ہوگی، روک دی جائے گی، خواہ کوئی بھی قیمت چکانی پڑے۔ عافیت اور جان کس کو عزیز نہیں ہوتی لیکن کچھ چیزیں زندگی سے بھی زیادہ قیمتی ہوتی ہیں۔ جتنا اور جس قدر جلد یہ نکتہ سمجھ لیا جائے، اتنا ہی عالمی امن کو سازگار ہوگا۔ بدبخت ابو لہب کے فرزند نے رحمتہ اللعالمینؐ کی شان میں گستاخی کی۔ سرکارؐ نے ہاتھ اٹھائے اور کہا ’’یا رب اپنے کتوں میں سے کوئی کتا اس پہ مسلط کردے‘‘ پھر اس کی زندگی زندگی نہ رہی۔ ہمہ وقت ایک خوف اس پہ طاری رہتا۔ ایک جملہ ہمہ وقت وہ دہرایا کرتا ’’محمدؐ مجھے مار ڈالیں گے‘‘ تجارتی کاررواں کے ساتھ سفر کرتا تو سینکڑوں ہم نفس ہم رکاب ہوتے۔ اس کے باوجود اندیشوں سے نجات نہ مل سکی۔ نیند بگڑ گئی۔ کھانا پینا دوبھر ہو گیا۔ بس یہی جملہ وردِ زبان رہتا۔ ’’محمد مجھے مار ڈالیں گے‘‘ بلادِ شام کی مسافت میں، جہاں ہندوستان اور چین سے درآمد گرم مصالحے اور دوسرا سازوسامان عرب تاجر بازنطینی سلطنت کے لیے برآمد کیا کرتے، ایک پڑاؤ میں المناک موت وہ مارا گیا۔ اہتمام سے قافلے کے وسط میں پڑا تھا کہ چھلانگ لگا کر ایک صحرائی شیر اس پہ جا پڑا۔ چیر پھاڑ ڈالا۔ عبرت حاصل کرنے والوں کو عبرت پانی چاہئیے تھی۔ اس امر کی کوئی شہادت مگر نہیں ملتی کہ ان میں سے کوئی تائب ہوا ہو۔ انسانوں کی بدترین بدقسمتیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اذیت ناک واقعات کے اسباب و عوامل پہ کم ہی غور کرتے ہیں۔ مغلوب اور مجبور ہو کر ہی آدمی سیکھتے ہیں۔ وقت کا پہاڑ جب ان کے سروں پہ جھک جاتا ہے۔ یونان کے فقید المثال فلسفی ارسطو نے کہا تھا: انسانوں کی دو قسمیں ہیں۔اکثریت وہی کرتی ہے، جو اسے بتایا جاتا ہے۔ کم کم خود اپنے ذہن سے سوچتے ہیں۔ سلمان رشدی کے واقعے میں اہلِ مغرب کے لیے غور و فکر کا سامان ہے۔ سمجھنے کی کوشش کریں تو سمجھ سکتے ہیں کہ مسلمان اور تو کچھ بھی گوارا کر سکتے ہیں مگر قرآنِ کریم اور سرکارؐ کی توہین کی تاب نہیں لا سکتے۔ اسلام کی عمارت انہی دو بنیادوں پہ کھڑی ہے۔ قرآنِ کریم سے پہلے نازل ہونے والی تینوں کتابیں مسخ ہو گئیں۔ انجیل ان میں سے آخری تھی۔انیسویں صدی کے دوسرے نصف تک اس کے درجنوں متون دستیاب تھے۔ کیتھولک چرچ نے ہولی اوکس نامی ایک پادری کو ایک ’’مستند‘‘نسخہ مرتب کرنے کی ذمہ داری سونپی۔ سالہا سال جتا رہا۔ نتیجہ تمام اندازوں کے برعکس نکلا۔ بائبل کو اس نے اللہ کا کلام تسلیم کرنے سے انکار ہی نہ کیا، سرے سے خالق کا منکر ہی ہو گیا۔ 1895ء میں اپنی تحقیقات کا نچوڑ اس نے شائع کیا تو مذہب سے بغاوت کا علَم لہرایا۔ یہی وہ شخص تھا، سب سے پہلے جس نے ’’سیکولرازم‘‘ کی اصطلاح استعمال کی۔ اس نے کہا کہ کوئی ایسا شخص سیکولر نہیں کہلا سکتا، جو خدا پہ یقین رکھتا ہو ’’جہاں سمندر ہو، وہاں خشکی نہیں ہوتی اور جہاں خشکی ہو، وہاں سمندر کا وجود نہیں ہوتا‘‘ اس نے لکھا۔ مغرب سے مرعوب ہمارے نام نہاد لبرل دانشوروں میں سے اکثر اس پسِ منظر سے واقف نہیں یا دیدہ دانستہ نظر انداز کرتے ہیں۔ کاروبارِ حکومت کو وہ چرچ اور حکمرانوں کی آویزش کے پسِ منظر میں دیکھتے ہیں۔ کمال سطحیت اور بے ذوقی سے اسلامی معاشروں پر بھی وہ من و عن اس کا اطلاق کرتے ہیں۔سامنے کی سچائی کو بھول جاتے ہیں کہ اسلام میں چرچ ایسے ادارے کا کبھی وجود نہ تھا۔احترام کے جو مستحق تھے، ان کا احترام کیا۔استثنائی حالات کے سوا کبھی حکومت نہ سونپی۔ چرچ تو وہ تھا، جس کی تصدیق کے بغیر مسیحی دنیا کا کوئی حکمران جائز قرار نہ پاتا۔ صلیبی جنگوں پر پوپ کی مہر ثبت تھی۔ پرشیا، فرانس، برطانیہ اور فرانس کے جنرل اور شہزادے نور الدین زنگی اور صلاح الدین کے خلاف اتفاق رائے سے تب بروئے کار آئے،جب ایک کے بعد دوسرے پوپ نے ان کی پشت پہ ہاتھ رکھا۔ پانچ اور دس پونڈ لے کر صدیوں تک پادری حضرات جنت کے پروانے جاری کیا کرتے۔ دنیاء ِ اسلام میں جب بھی جہاد کا غلغلہ اٹھا، علما ہم رکاب رہے لیکن صلاح الدین ایوبی سے لے کر ٹیپو سلطان تک کوئی حکمران کبھی مدارس، مکاتب اور مساجد کا محتاج نہ تھا۔ آزادی کی بعض تحریکوں میں علما کا کردار غیر معمولی رہا مثلاً 1857ء کا ہندوستان، رضا شاہ پہلوی کے خلاف ایرانیوں کی بغاوت، افغانستان میں مگر یہ کابل یونیورسٹی کے طالبِ علم تھے،جو بغاوت کی بنیاد بنے۔ سویت یونین سے امڈتے ہوئے سوشلزم اور ملوکیت کی آویزش میں وہ خود کو غیر جانبدار قرار دیتے۔ خفیہ طور پر قائم کی گئی اس تنظیم کا نعرہ یہ تھا: ہم’’بے طرف‘‘ ہیں۔ آگ کی طرح وہ تعلیمی اداروں میں پھیل گئے۔ یہیں سے وہ تحریک اٹھی، ساڑھے تین سو برس سے بڑھتے پھیلتے روس کو جس نے پسپا کر دیا۔ علما کی قیادت میں طالبان تو تب بروئے کار آئے، گلبدین حکمت یار کی ملک گیر حزبِ اسلامی کا راستہ روکنے کے لیے امریکہ اور اس کے حواریوں نے جب با رسوخ مذہبی خاندانوں کی چھوٹی چھوٹی پارٹیوں پہ پشت پناہی کی۔پاکستانی وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف جب عرب اور امریکی اشاروں پہ حرکت کرنے لگے۔ مجاہدین کی باہمی کشمکش جب خوں ریز ہو گئی۔ انارکی جب پھیل گئی۔ بدامنی حد سے بڑھی اور مقامی کمانڈر من مانی کرتے ہوئے حیوانیت پہ اتر آئے۔ جہاں تک نبوت اور قرآن کی تقدیس کا سوال ہے، امت اس پہ متحد رہی اور ہمیشہ متحد رہے گی۔ سلمان رشدی کے قتل کا فتویٰ اور اس پہ تین ملین ڈالر انعام کا اعلان سرزمینِ ایران سے ہو اتھا۔ عالمِ عرب، مسلم برصغیر یا مشرقِ بعید کے مسلم ممالک سے نہیں، جہاں انڈونیشیا کی سب سے بڑی مسلم حکومت قائم ہے۔ ملائیشیا جہاں موجود ہے، جس کی قیادت صاحبِ حمیت مہاتیر محمد کے ہاتھ میں تھی؛حتیٰ کہ ترکی بھی نہیں۔ وہ واحد ملک جس کے سپر پاور بننے کا امکان موجود ہے۔ ہمارے لبرل دانشور یہی بنیادی نکتہ نظر انداز کرتے ہیں کہ حالات کے ہاتھوں مسلمان کتنا ہی مجبورہو، کسی حال میں سرکارؐ کی توہین پہ خاموش نہیں رہ سکتا۔ عمران خان کی دعوت پر مہاتیر محمد2008ء میں اسلام آباد آئے تو ایک جواں سال خاتون نے 
  ، جو غالبا کسی این جی او کی نمائندہ تھی، ان سے کہا: قرآن مجید میں اگر کوئی کمی ہے تو ہمیں اس میں تبدیلی کر دینی چاہئے۔ رنجیدگی کا ایک رنگ مہاتیر محمد کے چہرے پہ آکے گزر گیا۔ فوراً ہی خود کو انہوں نے سنبھالا اور نہایت محکم آواز میں یہ کہا: غلطی ہمارے اندازِ فکر میں ہے، قرآن میں نہیں اور تفصیل سے گریز کیا۔ بندر کو ادرک کا سواد کیا بتاتے۔احساسِ کمتری کے مارے، دبے، سہمے سکڑے اور مرعوب ہمارے لبرل دانشوروں اور مغرب کو آخر ایک دن ادراک ہو گا کہ رسالت اور مصحف کی عظمت و تقدیس آخری سرخ لائن ہے، اسے عبور کرنے کی جو بھی کوشش ہوگی، روک دی جائے گی، خواہ کوئی بھی قیمت چکانی پڑے۔ عافیت اور جان کس کو عزیز نہیں ہوتی لیکن کچھ چیزیں زندگی سے بھی زیادہ قیمتی ہوتی ہیں۔ جتنا اور جس قدر جلد یہ نکتہ سمجھ لیا جائے، اتنا ہی عالمی امن کو سازگار ہوگا۔


مغرور آدمی اور شہد بیچنے والی بوڑھی عورت

ایک بازار سے ایک مغرور بندہ گذر رہا تھا کہ اس کی نظر سر پر ایک ڈول اٹھائے عورت پر پڑی، اس نے اسے آواز دیکر روکا اور نخوت سے پوچھا: اے مائی، کیا بیچ رہی ہو؟
عورت نے کہا: جی میں گھی بیچ رہی ہوں۔ 
اس شخص نے کہا: اچھا دکھاؤ تو، کیسا ہے؟
گھی کا وزنی ڈول سر سے اتارتے ہوئے کچھ گھی اس آدمی کی قمیض پر گرا تو یہ بہت بگڑ گیا اور دھاڑتے ہوئے بولا: نظر نہیں آتا کیا، میری قیمتی قمیض خراب کر دی ہے تو نے؟ میں جب تک تجھ سے اس قمیض کے پیسے نا لے لوں، تجھے تو یہاں سے ہلنے بھی نہیں دونگا۔
عورت نے بیچارگی سے کہا؛ میں مسکین عورت ہوں، اور میں نے آپ کی قمیض پر گھی جان بوجھ کر نہیں گرایا، مجھ پر رحم کرو اور مجھے جانے دو۔
اس آدمی نے کہا؛ جب تک تجھ سے دام نا لے لوں میں تو تجھے یہاں سے ہلنے بھی نہیں دونگا۔
عورت نے پوچھا: کتنی قیمت ہے آپ کی قمیض کی؟
اس شخص نے کہا: ایک ہزار درہم۔ 
عورت نے روہانسا ہوتے ہوئے کہا: میں فقیر عورت ہوں، میرے پاس سے ایک ہزار درہم کہاں سے آئیں گے؟
اس شخص نے کہا: مجھے اس سے کوئی غرض نہیں۔ 
عورت نے کہا: مجھ پر رحم کرو اور مجھے یوں رسوا نا کرو۔ ابھی یہ آدمی عورت پر اپنی دھونس اور دھمکیاں چلا ہی رہا تھا کہ وہاں سے کہ ایک نوجوان کا گزر ہوا۔ نوجوان نے اس سہمی ہوئی عورت سے ماجرا پوچھا تو عورت نے سارا معاملہ کہہ سنایا۔
نوجوان نے اس آدمی سے کہا؛ جناب، میں دیتا ہوں آپ کو آپ کی قمیض کی قیمت۔ اور جیب سے ایک ہزار درہم نکال کر اس مغرور انسان کو دیدیئے۔
یہ آدمی ہزار درہم جیب میں ڈال کر چلنے لگا تو نوجوان نے کہا: جاتا کدھر ہے؟
آدمی نے پوچھا: تو تجھے کیا چاہیئے مجھ سے؟
نوجوان نے کہا: تو نے اپنی قمیض کے پیسے لے لیئے ہیں ناں؟
آدمی نے کہا: بالکل، میں نے ایک ہزار درہم لے لیئے ہیں۔
نوجون نے کہا: تو پھر قمیض کدھر ہے؟
آدمی نے کہا: وہ کس لیئے؟
نوجوان نے کہا: ہم نے تجھے تیری قمیض کے پیسے دیدیئے ہیں، اب اپنی قمیض ہمیں دے اور جا۔
آدمی نے گربڑاتے ہوئے کہا: تو کیا میں ننگا جاؤں؟
نوجوان نے کہا: ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں۔ 
آدمی نے کہا: اور اگر میں یہ قمیض نا دوں تو؟
نوجوان نے کہا: تو پھر ہمیں اس کی قیمت دیدے۔ 
اس آدمی نے پوچھا: ایک ہزار درہم؟
نوجوان نے کہا: نہیں، قیمت وہ جو ہم مانگیں گے۔ 
اس آدمی نے پوچھا: تو کیا قیمت مانگتے ہو؟
نوجوان نے کہا: دو ہزار درہم۔ 
آدمی نے کہا؛ تو نے تو مجھے ایک ہزار درہم دیئے تھے۔ 
نوجوان نے کہا: تیرا اس سے کوئی مطلب نہیں۔ 
آدمی نے کہا: یہ بہت زیادہ قیمت ہے۔ 
نوجوان نے کہا؛ پھر ٹھیک ہے، ہماری قمیض اتار دے۔ 
اس آدمی نے کچھ روہانسا ہوتے ہوئے کہا: تو مجھے رسوا کرنا چاہتا ہے؟
نوجوان نے کہا: اور جب تو اس مسکین عورت کو رسوا کر رہا تھا تو!!
آدمی نے کہا: یہ ظلم اور زیادتی ہے۔ 
نوجوان نے حیرت سے کہا: کمال ہے کہ یہ تجھے ظلم لگ رہا ہے۔ 
اس آدمی نے مزید شرمندگی سے بچنے کیلئے، جیب سے دو ہزار نکال کر نوجوان کو دیدیئے۔ 
اور نوجوان نے مجمعے میں اعلان کیا کہ دو ہزار اس عورت کیلئے میری طرف سے ہدیہ ہیں۔
ہمارے ہاں بھی اکثریت کا حا ل ایسا ہی ہے۔ ہمیں دوسروں کی تکلیف اور توہین سے کوئی مطلب نہیں ہوتا لیکن جب بات خود پر آتی ہے تو ظلم محسوس ہوتا ہے۔ اگر معاشرتی طور پر ہم دوسروں کی تکلیف کو اپنا سمجھنا شروع کر دیں تو دنیا کی بہترین قوموں میں ہمارا شمار ہو۔ اگر وقت ملے تو سوچیے گا

دسترخوان کا بچوں کی تربیت میں اہم کردار


       *┄┅•••••⊰✿🍀✿⊱••••۔

 *دسترخوان کا بچوں کی تربیت میں اہم کردار* 

کھانا دم پر ہو اور بھوک سے دم نکل رہا ہو تو اکثر گھروں میں کیا سننے کو ملتا ہے؟ ارے بھئی جلدی کھانا نکالو، آج کیا بنایا ہے؟ خوشبو تو بڑی اچھی آ رہی ہے، ارے یہ کیا بنادیا بولا بھی تھا کہ۔۔۔۔ لیکن اب ایسی ساری باتوں کو خدا حافظ کہہ دیں پھر یہ کریں۔

کھانے تیار ہونے کے بالکل نزدیک ہو تو بچے/بچوں سے کہیں کہ دسترخوان لائیں اور ایک کنارے سے دسترخوان خود پکڑیں باقی کنارے بچوں سے پکڑنے کا کہہ کر سیدھے انداز میں دسترخوان بچھائیں، سلوٹیں کیسے دور کی جاتی ہیں خود کر کے بچوں کو دکھائیں۔

دسترخوان پر کھانے کے لیئے استعمال ہونے والے برتن دسترخوان پر لا کر رکھنے کے لئے بچوں کو اپنے ساتھ کچن میں لے جائیں، انہیں دکھائیں کہ برتن کس طرح پکڑنا ہے، کس ترتیب سے لا کر رکھنے ہیں۔

ڈائننگ ٹیبل ہو یا فرشی دسترخوان، کیسے بیٹھنا ہے انہیں اسی طرح بیٹھ کر بتائیں، کھانے کی دعا ایک دو بار خود بلند آواز میں پڑھیں پھر کسی بچے کو نامزد کردیں کہ آئیندہ سے وہ دعا پڑھوائے اسی طرح برتن دسترخوان پر لا کر رکھنے کی باری طے کی جاسکتی ہے۔

کھانہ سامنے آ جائے تو بچوں کو ایثار، پہلے دوسرے اور ساتھ ہی آداب میزبانی سکھانے کے لئے جھٹ سے کھانا اپنی پلیٹ میں نکالنے کی بجائے اپنے ہاتھ سے بچے کی پلیٹ میں ڈالیں، آخر میں اپنی پلیٹ میں نکالیں۔

بچے کو ایثار سکھانا چاہتے ہیں تو بوٹی یا کوئی پسندیدہ چیز  اپنی پلیٹ میں سے نکال کر بچے کی پلیٹ میں رکھ دیں، کھانا کم ہو اور لوگ زیادہ، ایسے میں کبھی اپنے حصے کے نوالے کم کر کے، کبھی زبانی ضرورت اور خواہش کی قربانی کے بارے میں ہلکے پھلکے انداز میں بتائیں۔

نوالہ کتنا بڑا ہو، کیسے چبانا ہے؟ اس کا باقاعدہ ڈیمو دکھائیں، دسترخوان پر یوں ہی الل ٹپ کسی بھی موضوع پر بات کے بجائے کوئی بات سمجھانے بتانے کے لیے پہلے سے ٹاپک سوچ کر ذہن بنالیں اور صرف اپنی کہے جانے کے بجائے بچوں کی رائے سننے اور سمجھنے کی کوشش ہو تو اچھا ہے۔

بچے کو برداشت سکھانا چاہ رہے ہیں تو کھانا پسند کا نہ ہو یا ذائقہ مطلب کا نہ ہو منہ بنائے بغیر کھانے کا ڈیمو دیں ساتھ ہی زبانی بھی بتائیں کہ کھانے پسند نہ آئے تو تنقید اور تبصرے کے بجائے خاموشی اچھی ہے۔

کھانا مکمل ہوگیا، اب برتن سمیٹنے، ہر چیز واپس اپنی جگہ پہ رکھنے کا کام خود شروع کریں ساتھ ساتھ بچوں سے بھی کروائیں، اب چلتے چلتے یہ بات گرہ سے باندھ لیں دسترخوان لرننگ پراسس میں صرف چند دن کی ایکسرسائز سے یا بے دلی سے محض رسم پوری کرنے والے رویہ کچھ نہیں کچھ بھی نہیں ہوگا اس کے لیے مناسب عرصہ لگ کر، جم کر دلچسپی سے کام کرنا ہوگا.....

التماسِ دعا:
اَلَّهُمَّ صَلِ عَلَى ُمُحَمَّدٍ ُّوعَلَى اَلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى اِبْرَاهِيْمَ وَعَلَى اَلِ ابْرَاهِيْمَ اِنَّكَ حَمِيْد مَجِيِد۔ 
اَلَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وعَلَى اَلِ مُحَمّدٍ كَمَابَارَكْتَ عَلَى اِبْرَاهِيْمَ وَعَلَى اَلِ اِبْرَاهِيْمَ اِنَّكَ حَمِيْد مَّجِيد..... کے

Monday, August 15, 2022

خلائی چٹان آور قیامت

خلائی چٹان اور قیامت 
اپافس (Apophis) ایک خلائی چٹان کا نام ہے جو اس وقت میڈیا میں ایک نمایاں خبر بن گئی جب دسمبر 2004 کے مہینے میں ماہرین فلکیات نے یہ پیش گوئی کی تھی کہ 13 اپریل 2029 کو اس چٹان کے زمین سے ٹکرانے کا امکان ہے۔ اس خبر نے ساری مہذب دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ ہزار فٹ چوڑی ایسی کسی چٹان کے زمین سے ٹکرانے کا مطلب سیکڑوں ایٹم بموں کے برابر تباہی۔ کروڑوں لوگوں کا مرنا اور پوری دنیا کا نظام معطل ہونا تھا۔
 
تاہم بعد میں زیادہ درست مشاہدات نے اس امکان کو رد کر دیا۔ ناسا کی رپورٹس کے مطابق یہ چٹان 13 اپریل 2029 کے دن زمین کے بہت قریب یعنی بیس ہزار میل کے فاصلے سے گزرے گی، لیکن اس کا زمین سے ٹکرانے کا امکان نہیں ہے۔ لیکن یہ فاصلہ اتنا کم ہے کہ اُس دن لوگ اسے اپنی آنکھوں سے زمین کے اوپر سے گزرتے ہوئے دیکھیں گے۔ انٹرنیٹ پر موجود وڈیو پر اگر اس منظر کو دیکھا جائے تو لگے گا کہ بیس ہزار میل کے جس فاصلے سے یہ چٹان زمین سے گزرے گی وہ خلائی معیارات پر بال برابر فاصلہ بھی نہیں ہے۔ گویا انسانیت کو ایک عظیم تباہی سے بال برابر فاصلے سے بچا لیا گیا۔
 
آسمانی صحیفوں میں قیامت سے متعلق جو بیانات آئے ہیں، ان سے یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ قیامت کسی آسمانی آفت سے جنم لے گی،(مکاشفہ9:20)، (الذاریات22:51)۔ موجود سائنسی معلومات کے مطابق اس کی ایک ممکنہ شکل ایسی ہی کسی خلائی چٹان کا زمین سے ٹکرانا ہے جس سے ہونے والی تباہی زمین پر موجود تمام مخلوقات کو ختم کر دے گی۔ ڈائناسور اور زمین کی ستر فی فیصد انواع کو جس چٹان نے ختم کیا تھا وہ محض دس سے پندرہ کلومیٹر لمبی تھی۔ نظام شمسی میں اس سے کہیں زیادہ بڑی چٹانیں گھوم رہی ہیں اور جس روز اللہ کا اذن ہوگا، ان کا رخ زمین کی طرف ہوجائے گا۔
 
بہت سے سائنسدانوں کے نزدیک ایسی کسی چٹان کا زمین سے ٹکرانا ایک یقینی امر ہے اور یہ اگر کا نہیں کب کا معاملہ ہے۔ یعنی اس بات کا وقت تو آگے پیچھے ہوسکتا ہے، لیکن ایسا ہونا لازمی ہے۔ مریخ اور دیگر مقامات پر خلائی مشن بھیجے جانے کی ایک وجہ زمین کا متبادل تلاش کرنا بھی ہے۔ انسانی دماغ جو انسانی شخصیت کی اصل ہے، اسے کسی دھاتی  قالب میں منتقل کرنے کے جو مختلف پروجیکٹ دنیا میں جاری ہیں، ان  کے پیچھے جہاں موت کو شکست دینے کی خواہش ہے وہیں اس کا مقصد انسان کے لیے ایسا قالب تیار کرنا ہے جو دیگر سیاروں کے ہر طرح کے سخت ماحول میں رہ سکے۔
 
دورِ جدید میں اہل مغرب اور دیگر جدید اقوام اگر اس رخ پر سوچ رہی ہیں تو اس کے پیچھے انکار خدا کی وہ سوچ ہے جس کے مطابق یہ کائنات بخت و اتفاق کا ایک کارخانہ ہے جہاں انسان خوش قسمتی سے آگیا ہے۔ یہ مادی دنیا آخری حقیقت اور یہ زندگی واحد سچائی ہے۔
 
دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ بہت جلد اللہ تعالیٰ اس دنیا کو ختم کرنے والے ہیں۔ آسمانی صحائف میں قیامت سے پہلے تین بڑی پیش گوئیاں کی گئی تھیں۔ ایک حضرت عیسیٰ کے آنے، دوسرے حضور کی آمد کی اور تیسری یاموج ماجوج کے دنیا پر غالب ہوجانے کی۔ پہلی پیش گوئی انجیل کے نزول کے ساتھ پوری ہوگئی اور انجیل میں صرف دو پیش گوئیاں رہ گئیں۔ یعنی حضور کی آمد اور یاجوج ماجوج کا غلبہ۔ قرآن کے نزول کے ساتھ دوسری پیش گوئی بھی پوری ہوگئی اور قرآن میں صرف یاجوج ماج کی پیش گوئی رہ گئی۔ موجودہ دور میں مغربی اقوام کے غلبے کے ساتھ یہ تیسری پیش گوئی بھی پوری ہوچکی ہے۔ اب صرف قیامت کا آنا رہ گیا ہے جو کسی وقت بھی آسکتی ہے۔
 
خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو قیامت کے آنے سے قبل خود کو قرآن کا مطلوب انسان بنا لیں۔ بدنصیب ہیں وہ لوگ جو قیامت کی اتنی صریح نشانیاں دیکھ لینے کے باوجود غفلت میں رہیں۔/

Sunday, August 14, 2022

ڈپریشن کی ایک واحد وجہ

t.me/sunnatwaljamat

*🍁•••══༻◉﷽◉༺══•••🍁*

*”‏ڈپریشن کی ایک بنیادی وجہ اپنی محرومیوں کے بارے میں زیادہ سوچنا ہے۔میسر نعمتوں کو شمار کریں ذہن متوازن اور دل سکون میں رہے گا!“*


*اگر ایک بار ہمیـــــــــں ... پرہیزگاری کی زندگی کی قیمت ... معلوم ہو جائے ... تو ہم کبھــــــــی ... اللہ عزوجل کی حد کو ... پار نہیــــں کریں گے .......!!!*



*میری آنکھیں صرف اللہ کو دیکھنا چاہتی ہیں ... میرے کان صرف اللہ کو سننا چاہتے ہیں ... میری روح کو صرف اللہ کی ضرورت ہے ... میرا دل کہتا ہے میرے لیے اللہ ہی کافی ہے ... مجھ پر صرف اللہ کا حق ہے ........!!!*



*کبھی کبھی ... دین و دنیا کے درمیان توازن ... برقرار رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے .........!!!*



*‏کھانا ہضم کرنے کے لئے ... ہم سبـــــــــ مختلف تراکیب کرتے ہیــــــــں ... اور سبـــــــــــــــ کو معلومات بھی ہیـــــــــں ... الحمدللہ ثمہ الحمداللہ ... مگرررررر  ہم میــــں سے ... کچھ لوگوں کو ایک شدید والی بیماری ہوتی ہے ... یہ کہ ان سے دوسروں کی باتیں ہضم نہیـــــــــں ہوتیــــں ........!!!*



*‏دوسروں کے متعلق فیصلے نہیـــــــــں ... فکر کریں ... وقتــــــــــــــــ مختصر ہے ... اور حســـــــــابـــــــــ سختـــــــــ ہے ... آپ چلے جائیں گے ... رویے رہ جائیں گے ........!!!*


*‏بعض لوگ ... ریاضی کے سوال کی مانند ہوتے ہیــــــــں ... انکا حل طویل ہوتا ہے ... لیکن نتیجہ (0) صفر ........!!!*


*ہم کِســـــــــں قدر ترسے ہوئے دور کی پیداوار ہیــــــــں ... ہر شخص قربت  چاہتا ہے ... اور ہر انسان قربت سے محروم ہے ... ہر دل محبتـــــــــــــــــ کو تڑپتا ہے ... اور کئی دل محبتـــــــــــــــــ سے خالی ہیــــــــں ….....!!!*


*مدد کرنا ایک بہت مہنگا تحفہ ہے،مگر ہر کسی سےاس کی امید نہ رکھیں کیونکہ بہت کم لوگ دل کے امیر ہوتے ہیں....*

*کوشش کریں کہ لوگوں کی روح کو زخمی نا کریں کیونکہ جسم کے زخم کی ہزاروں دوائیاں، ہزاروں طبیب مل جاتے ہیں مگر  روح کے طبیب بازار سے نہیں ملتے*
*حقوق العباد کا خاص خیال رکھیں..


*اگر آپ کے پاس سوال کے جواب میں دلیل نہیں ہے تو کوئی بات نہیں مگر گالم گلوچ جاہل ہونے کی نشانی ہے فیصلہ آپ نے کرنا ہے*



*‏یہ تلخ حقیقت ہے کہ ہمیشہ کیلیے لوگ میری باتوں کو توجہ میری حیثیت دیکھ کر دیتے  رہے گے.😥*

*┄┅════❁🌹❁════┅┄*

Monday, August 8, 2022

ایک ایسا واقعہ جو اقبال ؒ نے اپنی زندگی میں بتانے سے منع کیا*

*خواجہ معین الدین چشتی ؒ ، داتا گنج بخش علی ہجویریؒ اور علامہ اقبال رحمہ اللہ تعالیٰ*

*ایک ایسا واقعہ جو اقبال ؒ نے اپنی زندگی میں بتانے سے منع کیا*

‎لاہور (خصوصی رپورٹ) علامہ اقبال کے خادم میاں علی بخش کو علامہ کے ہاں ایسا نا قابل فراموش واقعہ پیش آیا جسے وہ عمر بھر یاد کرتے رہے اور مجاہد ملت حضرت مولانا محمد عبد الستار نیازی اس واقعے کے اصل راوی تھے۔گوجرانوالہ کے ایک بزرگ علی بخش کے پاس آئے اور کہا کہ انھیں علامہ اقبال کی زندگی کے کچھ واقعات بتائیں۔ علی بخش نے جوب دیا’’ میں ساری باتیں کہہ چکا ہوں ، اب کو ئی بات باقی نہیں رہی۔جب اس بزرگ نے اصرار کیا تو علی بخش نے کہا ’’ہاں‘‘ ایک واقعہ ایسا ہے جو پیش آیا مگر علامہ اقبال نے اسکی تفصیلات مجھے نہیں بتائیں ایک روز وہ یعنی علامہ صاحب میری فداکارانہ خدمت سے مسرور تھے۔ اور مجھے کہا ، علی بخش بتاؤ تمہیں کیا دوں کہ تم خوش ہو جاؤ ؟ میں نے جواب دیا کہ جو معاملہ آپ کو ایک دن پیش آیا تھا اور میں نے اسکے بارے میں نے آپ سے سوال کیا ، تو آپ نے بتانے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ بتائیں۔ علامہ نے فرمایا اب بتانا چاہتا ہوں مگر اس شرط کے ساتھ کہ میرے( حین حیات )عمر بھرکسی کو نہ بتانا ، البتہ میری زندگی کے بعد بتا سکتے ہو۔ وہ واقعہ یوں ہے۔ایک روز نصف شب علامہ اقبال بستر پر لیٹے ہوئے تھے بے حد بے چین اور مضطرب تھے۔ دائیں بائیں کروٹ بدلتے تھے۔ یکایک آپ اٹھ کھڑے ہوئے اور کوٹھی (میکلوڈ روڈ ) کے دروازے کی طرف گئے۔ میں بھی پیچھے چلا گیا۔ اتنے میں ایک پاکیزہ بزرگ اندر داخل ہوئے۔ ان کا لباس خوبصورت اور سفید تھا۔ انھیں آپ اندر لے آئے اور پلنگ پر بٹھا دیا اور خود نیچے بیٹھ کر بزرگ کے پاؤں دبانے لگے۔ اس دوران علامہ صاحب نے ان سے پوچھا کہ آپ کے لئے کیا لاؤں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ دہی کی لسی بنا کر پلا دو۔ اس پر علامہ صاحب نے مجھ سے کہا کہ جگ لیکر جاؤ اور لسی بنوا کر لے آؤ۔میں حیران تھا کہ اس وقت لسی کہاں سے حاصل کروں۔ بھاٹی گیٹ جا کر کسی مسلمان کی دکان سے بنوا کر لاؤں یا اسٹیشن جاؤں۔ جونہی میں کوٹھی سے باہر نکلا تو کوٹھی کے سامنے ایک بازار دکھائی دیا۔جو میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ بازار میں مجھے ایک لسی والے کی دکان نظر آئی۔ میں اس کے پاس گیا اور اسے کہا مجھے جگ میں لسی بنا کر دے دو۔ اس نے جگ مجھ سے لیکر اچھی طرح دھویا۔ پھر ایک دہی کی صحنک (کونڈا) اٹھا کر اپنے گڈوے میں لسی بنائی۔اور جگ میں بھر دی ، میں نے پیسے پوچھے تو سفید ریش بزرگ نے جواب دیا کہ علامہ صاحب سے ہمارا حساب چلتا رہتا ہے۔تم لے جاؤ اور ان کو پیش کر دو۔ میں جگ لیکر آیا اور حضرت علامہ کو پیش کر دیا۔حضرت نے ایک گلاس بھر کر ان سفید ریش روحانی بزرگ کو پیش کیا۔ انہوں نے پی لیا۔ پھر دوسرا گلاس بھر کر دیا وہ بھی انہوں نے پی لیا جب تیسرا گلاس بھرا تو بزرگ نے کہا خود پی۔ کافی دیر تک علامہ اقبال ان بزرگ کے پاؤں دباتے رہے اور باتیں کرتے رہے۔ کچھ دیر بعد وہ بزرگ اٹھ کھڑے ہوئے اور کوٹھی سے باہر نکےر کے لئے چل دئیے۔ علامہ صاحب بھی انکے ساتھ نکلے۔میں بھی انکے پیچھے چلا۔ وہ بزرگ کوٹھی سے باہر نکلے تو اچانک غائب ہو گئے میں حیران تھا کہ یہ کون تھے ؟ اب کہاں چلے گئے اور پھر وہ سامنے بازار بھی نہ تھا ، جس کے ایک دکاندار نے مجھے لسی بنا کر دی تھی۔ اس دن میں نے پوچھا حضرت یہ بزرگ کون تھے اور دکان پر بیٹھے ریش دار بزرگ کون تھے ؟ علامہ اقبال نے فرمایا کہ میں انکے نام بتاتا ہوں لیکن میری زندگی میں کسی کو نہ بتانا جو بزرگ کوٹھی میں تشریف لائے اور لسی پی وہ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ تھے اور جس بزرگ نے لسی بنا کر دی وہ داتا گنج  بخش علی ہجویری تھے

مشہور سابق برطانوی سنگر Cat Stevens کا 4 شادی پر مہ توڑ جواب

نمرود کی طرح لبرل صحافی لاجواب
     
     مشہور سابق برطانوی سنگر Cat Stevens (یوسف إسلام) ترکی کے دورے پہ آئے اہلیہ کے ہمراہ۔ ایک لبرل صحافی نے چبھتا ہوا سوال پوچھا کہ آپ بحیثیتِ ایک یورپی سنگر اور روشن خیال شخصیت کے کیا یہ پسند کریں گے کہ قبول اسلام کے بعد چار عورتوں سے بیک وقت نکاح کریں؟ آپ جیسی شخصیت کی عقل اسے کیسے تسلیم کرے گی؟ کیا یہ کوئی لوجیکل بات ہے؟ یہ خواتین کے ساتھ ظلم نہیں؟
یوسف صاحب حسب عادت مسکرائے اور کچھ توقف کے بعد فرمایا کہ آپ کا یہ سوال میرے قبول اسلام سے پہلی والی حالت کے متعلق ہونا چاہئے نہ کہ موجودہ حالت پہ۔ 
کیوں؟
اس لئے کہ اسلام سے پہلے میرے جن عورتوں سے تعلقات تھے، ان کی درست تعداد بھی مجھے یاد نہیں اور ان میں سے کتنی عورتوں سے میری کتنی اولاد ہوئی، یہ بھی مجھے نہیں معلوم۔ وہ بچے کہاں اور کس حال میں ہیں، میں کچھ نہیں جانتا۔ تو یہ سوال پہلی والی حالت پہ وارد ہوتا ہے نہ کہ اب۔ اب تو میں الحمدللہ مسلمان ہوں۔ میری ایک ہی بیوی ہے۔ اس کے ساتھ میں خوش ہوں۔ اس کے ہوتے دوسری شادی کا کوئی خیال بھی نہیں۔ اسلام نے کب مجھے پابند کیا ہے کہ مجھے دوسری شادی کرنی ہے۔ تیسری اور چوتھی کا سوال ہی نہیں۔ اگر بالفرض میں شادیاں کر بھی لوں تو اسلام نے بیوی اور اولاد کی تمام تر ذمہ داریاں نبھانے کا بھی مجھے پابند کیا ہے۔ اس پہ تو میرے دوست! تجھے اعتراض اور پریشانی ہے۔ لیکن میرے ان بچوں کی کوئی فکر نہیں جنہیں میں آج جانتا بھی نہیں۔ پتہ نہیں کہاں پل رہے ہیں یا زندگی سے ہی محروم ہوچکے ہیں۔ کیا چار بیویاں رکھ کر ان کی کفالت اور اولاد کی تربیت کرنا بہتر ہے یا سینکڑوں عورتوں کو استعمال کرکے ان سے ہونے والی اولاد سے لا تعلق ہونا؟ اور انہیں اندھیری راہوں کے سپرد کرنا؟ ان دو میں سے بتایئے انسانیت دشمنی کس میں ہے اور دوستی کس میں؟ کونسا خواتین کے ساتھ ظلم ہے اور کس میں انصاف؟
یہ سن کر نمرود کی طرح لبرل صحافی لاجواب ہوگیا۔
(ضیاء چترالی)
۔
۔
۔
    

Sunday, August 7, 2022

نیک گمان

1) ایک محترمہ ٹیکسی ڈرائیور کے برابر والی سیٹ پر بیٹھ کر سفر کررھی ھے حالانکہ پچھلی سیٹیں خالی ھیں!

2) ایک شخص مسجد کے آگے سے گزررھاھے ، جب کہ لوگ نماز پڑھ رھے ھیں۔ اور وہ نماز ادا کیے بغیر آگے گزر جاتاھے!

3) آپ ایک آدمی کے پاس سے گزرتے ھیں اور اسے سلام کرتے ھیں مگر وہ جواب نہیں دیتا!

1) محترمہ، ٹیکسی چلانے والے کی اھلیہ ھیں۔

2) اس آدمی نے دوسری مسجد میں نماز پڑھ لی ھے۔

3) اس شخص نے آپ کے سلام کی آواز سنی ھی نہیں ھے۔

ایک بزرگ فرماتے ھیں کہ اگر میں کسی بھائی کواس حال میں دیکھوں کہ اس کی داڑھی سے شراب کے قطرے ٹپک رھے ھیں تو میں یہی حسن ظن رکھوں گا کہ کسی اور نے اس کی داڑھی کے اوپر شراب انڈیلی ھے۔۔۔

اور اگر کسی بھائی کو پہاڑ کی چوٹی پر یہ پکارتے ھوئے سنوں: "انا ربکم الاعلی"(میں تمھارا عظیم ترین رب ھوں)... تو میں یہی گمان کروں گا کہ وہ قرآن کی تلاوت کررھاھے۔

ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ھیں کہ انسان کے لیے خود اپنے اعمال کی نیتوں کو جاننا مشکل ھے اوروہ دسروں کی نیتوں کے بارے میں فیصلے صادر کرتا پھرتا ہے

اکثر دفعہ آپ معاملے کے صرف ایک رخ کو دیکھتے ھیں لہذا دوسرے رخ کو آپ مثبت طرح سے لیں. تاکہ لوگوں کے ساتھ زیادتی اور ان کی حق تلفی نہ ھو۔

دوسروں سے متعلق ھمیشہ نیک گمان رکھیں.

حضرت موسیٰ علہ سلام اور پانی کا پیالہ

موسیٰ علیہ السلام نے اپنے پروردگار سے سرگوشی کرتے ہوئے پوچھا:" اے پروردگار ! تیرا چہرا کدھر ہے ؟ شمال یا جنوب کی جانب؟ تاکہ میں اس کی طرف منہ کرکے تیری عبادت کر سکوں۔"
اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی بھیجی: "اے موسیٰ! آپ آ گ جلائیں، پھر اس کے اردگرد چکر لگا کر دیکھیں کہ آگ کا رخ کس جانب ہے۔؟"
موسیٰ علیہ السلام نے آ گ روشن کی اور اس کے اردگرد چکر لگایا، دیکھا تو آ گ کی روشنی ہر چار سو یکساں ہے۔
چنانچہ دربارِ الٰہی میں عرض کیا:"پروردگا ! میں نے آگ کا رخ ہر جانب یکساں ہی دیکھا۔"
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "اے موسیٰ میری مثال بھی ویسی ہی ہے۔"
موسیٰ علیہ السلام نے پوچھا:"اے پرودگار! تو سوتا ہے یا نہیں؟"
اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی نازل فرمائی:" اے موسیٰ! پانی سے بھرا ہوا ایک پیالہ اپنے دونوں ہاتھوں پر رکھ لو، پھر میرے سامنے کھڑے رہو اور نیند کی آغوش میں مت جاؤ۔"
موسیٰ علیہ السلام نے ایسا ہی کیا۔ پھر اللہ تعالٰی نے ان پر ہلکی سی اونگھ ڈالی، پیالہ ان کے ہاتھ سے گر کر ٹوٹ گیا اور پانی بہہ گیا۔
موسیٰ علیہ السلام کی چیخ نکل گئی اور وہ گھبرا گئے... پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
" اے موسی ! میں آنکھ کی ایک جھپک بھی سو جاؤں تو یہ آسمان زمین پر دھڑام سے گر پڑے گا جیسے تیرا پیالہ زمین پر گر پڑا۔"اور یہ اللہ تعالیٰ کے اس قول کی طرف اِشارہ ہے۔۔
۔"یقینی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمانون اور زمین کو تھامے ہوئے ہے کہ وہ ٹل نہ جائے تو پھر اللہ کے سوا اور کوئی ان کو تھام بھی نہیں سکتا، وہ حلیم و غفور ہے۔(فاطر۔41)۔
موسیٰ علیہ السلام نے پوچھا: اے میرے پروردگار ! تو نے مخلوق کی تخلیق کیوں کی جبکہ ان سے تجھے کوئی ضرورت نہیں پڑتی؟
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:"میں نے ان کی تخلیق اس لیے فرمائی ہے تاکہ یہ مجھے پہچانیں، مجھ سے اپنی مرادیں مانگیں اور میں ان کی مرادیں پوری کروں،اور میری نافرمانی کے بعد مغفرت وبخشش کی درخواست لے کر میری خدمت میں حاضرہوں اور میں ان کے لیے مغفرت و بخشش کا پروانہ جاری کروں۔"
موسیٰ علیہ السلام نے پوچھا میرے رب ! کیا تو نے کوئی ایسی چیز بھی پیدا کی ہے جو تیری ہی جستجو میں رہتی ہے؟
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :"ہاں مومن بندے کا دل جو میرے لیے خالص ہے۔"
موسیٰ علیہ السلام نے پوچھا: یہ کیسے اے پروردگار؟
اللہ تعالیٰ نے موسی علیہ السلام سے فرمایا:"جب مومن بندہ مجھے نہیں بھولتا تو اس کا دل میری یاد سےلبریز رہتا ہے اور میری عظمت اس پر محیط ہوتی ہے اور مجھے جو یاد کرتا ہے میں اس کا ساتھی بن جاتا ہوں ۔"❤️🙂

Jahangir ka daur mein Shia Munazir ka Firaar

*शिया मुनाजी़र का फरार*

जहांगीरकी बीवी नूरजहाँ शिया थी उसने ईरान ख़त लिखा के ईरान के सबसे बड़े मुनाज़ीरको हिंदुस्तान भेज दो ताकि मुनाज़रामें शिया मज़हब की हक्कानियत बयान करे और साथ में ये भी लिखा की वह मुनाज़ीर सीधा आगरा ना आए बल्कि लाहोर से होता हुआ आए जहाँ ऊलेमा नहीं हैं बल्कि सूफ़िया हैं जिनको हराना आसान है और इस तरह शिया मुनाज़ीरकी आगरा आने से पहले धाक बैठ जायगी!!!

शिया मुनाज़ीर सीधा मियाँ मीर साहबके पास पहुँचा आप इश्राककी नमाज़से अभी फ़ारिग़ ही हुए थे, जैसे ही वो दरवाज़ेमें से दाख़िल हुआ आपने फ़रमाया "ये शख़्स जो इस तरफ़ चला आ रहा है उसका दिल सियाह यानी काला है"

कुछ गुफ़्तगू के बाद हज़रतने दरयाफ़्त फ़रमाया क्या काम करते हो ? शिया मुनाज़ीर बोला के में ईरानसे आया हूँ और शान ए अहल ए बैत बयान करता हूँ।

मियाँ मीर साहबने फ़रमाया अहल ए बैतकी शान बयान करो ताकि सुन्नीका ईमान बढ़े!!!

शिया मुनाज़ीर बोलाकी इमाम हुसेन रदी. की ये शान है की कोई गुनहगार शख़्स आप रदी.की क़ब्रके 40 मिल के इर्दगिर्द दफ़न हो जाए तो वो शख़्स बख़्श दिया दिया जाता है!!!

मियाँ मीर साहबने बार बार फ़रमाया फिर सुना!!! फिर सुना!!! और उसके बाद पूछा की इमाम हूसेन ‎रदी. को ये मक़ाम कैसे मिला ? तो शिया मुनाज़ीर बोला की आप रदी. तो नवासा ए रसूल ‎ﷺ थे इस वजह से ये मक़ाम मिला!!!
तो मियाँ मीर साहबने फ़रमाया के जब नवासेकी ये शान है तो ख़ुद आप ‎ﷺ की क्या अज़ीम शान होगी ? वो बोला बेशक बड़ी शान है!!! बस यहीं पर मियाँ मीर साहबने सवाल किया के फिर आप ‎ﷺ के बिलकुल साथमे उनके हुज़रे में सोए हुए हैं क्या वो बख्शे नहीं जाएँगे ❓

शिया मुनाज़ीर हक्का बक्का रह गया और आगरा जाने के बजाय ईरान चला गया और कह कर गया के जहाँके सूफ़ी बुज़ुर्ग ऐसा इल्म रखते हैं तो यहाँके ऊलेमा का क्या मक़ाम होगा और ये ऐसा सवाल किया गया जिसका जवाब क़यामत तक कोई शिया नहीं दे सकता!!!

बहोत बहोत गुज़ारिश इस पोस्ट को शेर करने की और फ़िरक़ा ए बातिला का रद्द कर कि सवाब हासिल करें!!!

तरजुमा 
यूसुफ़ सिद्दिक वापी
१८/१/१८

Thursday, August 4, 2022

Alexander and Hazrat Umar

ﮨﻢ ﻧﮯ ﺑﭽﭙﻦ ﻣﯿﮟ ﭘﮍﮬﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﻘﺪﻭﻧﯿﮧ ﮐﺎ ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ 20 ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺑﻨﺎ۔ 23 ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﻣﯿﮟ ﻣﻘﺪﻭﻧﯿﮧ ﺳﮯ ﻧﮑﻼ، ﺍﺱ ﻧﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﭘﻮﺭﺍ ﯾﻮﻧﺎﻥ ﻓﺘﺢ ﮐﯿﺎ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ  ﻭﮦ ﺗﺮﮐﯽ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺍ، 
ﭘﮭﺮ ﺍﯾﺮﺍﻥ ﮐﮯ ﺩﺍﺭﺍ ﮐﻮ ﺷﮑﺴﺖ ﺩﯼ، ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﺷﺎﻡ ﭘﮩﻨﭽﺎ، ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﯾﺮﻭﺷﻠﻢ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺑﻞ ﮐﺎ ﺭﺥ ﮐﯿﺎ، ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﻣﺼﺮ ﭘﮩﻨﭽﺎ، ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﺍٓﯾﺎ، ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﻮﺭﺱ ﺳﮯ ﺟﻨﮓ ﻟﮍﯼ، ﺍﭘﻨﮯ ﻋﺰﯾﺰ ﺍﺯ ﺟﺎﻥ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﮐﯽ ﯾﺎﺩ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﺎﻟﯿﮧ ﺷﮩﺮ ﺍٓﺑﺎﺩ ﮐﯿﺎ، ﻣﮑﺮﺍﻥ ﺳﮯ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﻮﺍ ﻭﺍﭘﺴﯽ ﮐﺎ ﺳﻔﺮ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ، ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﭨﺎﺋﯿﻔﺎﺋﯿﮉ ﻣﯿﮟ ﻣﺒﺘﻼ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ 323 ﻗﺒﻞ ﻣﺴﯿﺢ ﻣﯿﮟ 33 ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﺨﺖ ﻧﺼﺮ ﮐﮯ ﻣﺤﻞ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮐﺮ ﮔﯿﺎ.
ﺩﻧﯿﺎ ﮐﻮ ﺍٓﺝ ﺗﮏ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ، ﻭﮦ ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﺎ ﻋﻈﯿﻢ ﺟﺮﻧﯿﻞ، ﻓﺎﺗﺢ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﺎﺭﻧﺎﻣﻮﮞ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺍﺳﮯ ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ ﺩﯼ ﮔﺮﯾﭧ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺳﮑﻨﺪﺭ ﺍﻋﻈﻢ ﯾﻌﻨﯽ ﺑﺎﺩﺷﺎﮨﻮﮞ ﮐﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺑﻨﺎﺩﯾﺎ، ﻟﯿﮑﻦ ﺍٓﺝ ﺍﮐﯿﺴﻮﯾﮟ ﺻﺪﯼ ﻣﯿﮟ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﻣﻮﺭﺧﯿﻦ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﯾﮧ ﺳﻮﺍﻝ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﯿﺎ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ ﮐﻮ ﺳﮑﻨﺪﺭﺍﻋﻈﻢ ﮐﮩﻼﻧﮯ ﮐﺎ ﺣﻖ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﮯ؟ ﻣﯿﮟ ﺩﻧﯿﺎ ﺑﮭﺮ ﮐﮯ ﻣﻮﺭﺧﯿﻦ ﮐﻮ ﺳﮑﻨﺪﺭ ﺍﻋﻈﻢ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﯽ ﻓﺘﻮﺣﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﺭﻧﺎﻣﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﻮﺍﺯﻧﮯ ﮐﯽ ﺩﻋﻮﺕ ﺩﯾﺘﺎ، ﺍٓﭖ ﺑﮭﯽ ﺳﻮچیے

ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﺎ ﺑﯿﭩﺎ ﺗﮭﺎ، ﺍﺳﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﮔﮭﮍﺳﻮﺍﺭﯼ ﺳﮑﮭﺎﺋﯽ، ﺍﺳﮯ ﺍﺭﺳﻄﻮ ﺟﯿﺴﮯ ﺍﺳﺘﺎﺩﻭﮞ ﮐﯽ ﺻﺤﺒﺖ ﻣﻠﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﻭﮦ ﺑﯿﺲ
ﺳﺎﻝ ﮐﺎ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﺗﺨﺖ ﺍﻭﺭ ﺗﺎﺝ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ، ﺟﺐ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﻘﺎﺑﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﯽ 7 ﭘﺸﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﮔﺰﺭﺍ ﺗﮭﺎ، ﺍٓﭖ ﺑﮭﯿﮍ ﺑﮑﺮﯾﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﻧﭧ ﭼﺮﺍﺗﮯ ﭼﺮﺍﺗﮯ ﺑﮍﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺗﻠﻮﺍﺭ ﺑﺎﺯﯼ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺮﺍﻧﺪﺍﺯﯼ ﺑﮭﯽ ﮐﺴﯽ ﺍﮐﯿﮉﻣﯽ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﯿﮑﮭﯽ ﺗﮭﯽ۔

ﺳﮑﻨﺪﺭ ﺍﻋﻈﻢ ﻧﮯ ﺍٓﺭﮔﻨﺎﺋﺰﮈ ﺍٓﺭﻣﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ 10 ﺑﺮﺳﻮﮞ ﻣﯿﮟ 17 ﻻﮐﮫ ﻣﺮﺑﻊ ﻣﯿﻞ ﮐﺎ ﻋﻼﻗﮧ ﻓﺘﺢ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ، ﺟﺐ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ 10 ﺑﺮﺳﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍٓﺭﮔﻨﺎﺋﺰﮈ ﺍٓﺭﻣﯽ ﮐﮯ ﺑﻐﯿﺮ 22 ﻻﮐﮫ ﻣﺮﺑﻊ ﻣﯿﻞ ﮐﺎ ﻋﻼﻗﮧ ﻓﺘﺢ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﻡ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﺮﺍﻥ ﮐﯽ ﺩﻭ ﺳﭙﺮ ﭘﺎﻭﺭ ﺑﮭﯽ ﺷﺎﻣﻞ ﺗﮭﯿﮟ۔

ﺍٓﺝ ﮐﮯ ﺳﯿﭩﻼﺋﭧ، ﻣﯿﺰﺍﺋﻞ ﺍﻭﺭ ﺍٓﺑﺪﻭﺯﻭﮞ ﮐﮯ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﮐﺴﯽ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺍﺗﻨﯽ ﺑﮍﯼ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﻮ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﻧﮧ ﺻﺮﻑ ﮔﮭﻮﮌﻭﮞ ﮐﯽ ﭘﯿﭩﮫ ﭘﺮ ﻓﺘﺢ ﮐﺮﺍﺋﯽ ﺗﮭﯽ، ﺑﻠﮑﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﻡ ﻭ ﺍﻧﺼﺮﺍﻡ ﺑﮭﯽ ﭼﻼﯾﺎ ﺗﮭﺎ، ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ ﻧﮯ ﻓﺘﻮﺣﺎﺕ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﮯ ﺷﻤﺎﺭ ﺟﺮﻧﯿﻞ ﻗﺘﻞ ﮐﺮﺍﺋﮯ، ﺑﮯ ﺷﻤﺎﺭ ﺟﺮﻧﯿﻠﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺟﻮﺍﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﮭﻮﮌﺍ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﺑﻐﺎﻭﺗﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻓﻮﺝ ﻧﮯ ﺍٓﮔﮯ ﺑﮍﮬﻨﮯ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﺩﯾﺎ، ﻟﯿﮑﻦ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﮐﺴﯽ ﺳﺎﺗﮭﯽ ﮐﻮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺣﮑﻢ ﺳﮯ ﺳﺮﺗﺎﺑﯽ ﮐﯽ ﺟﺮﺍٔﺕ ﻧﮧ ﮨﻮﺋﯽ.

ﻭﮦ ﺍﯾﺴﮯ ﮐﻤﺎﻧﮉﺭ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﻋﯿﻦ ﻣﯿﺪﺍﻥ ﺟﻨﮓ ﻣﯿﮟ ﻋﺎﻟﻢ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﮮ ﺳﭙﮧ ﺳﺎﻻﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﺧﺎﻟﺪ ﺑﻦ ﻭﻟﯿﺪ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﻮ ﻣﻌﺰﻭﻝ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺣﮑﻢ ﭨﺎﻟﻨﮯ ﮐﯽ ﺟﺮﺍٔﺕ ﻧﮧ ﮨﻮﺋﯽ۔ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺳﻌﺪ ﺑﻦ ﺍﺑﯽ ﻭﻗﺎﺹ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﻮ ﮐﻮﻓﮯ ﮐﯽ ﮔﻮﺭﻧﺮﯼ ﺳﮯ ﮨﭩﺎ ﺩﯾﺎ۔ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺣﺎﺭﺙ ﺑﻦ ﮐﻌﺐ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺳﮯ ﮔﻮﺭﻧﺮﯼ ﻭﺍﭘﺲ ﻟﮯ ﻟﯽ۔ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮﻭ ﺑﻦ ﺍﻟﻌﺎﺹ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﺎ ﻣﺎﻝ ﺿﺒﻂ ﮐﺮﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺣﻤﺺ ﮐﮯ ﮔﻮﺭﻧﺮﮐﻮ ﻭﺍﭘﺲ ﺑﻼ ﮐﺮ ﺍﻭﻧﭧ ﭼﺮﺍﻧﮯ ﭘﺮ ﻟﮕﺎ ﺩﯾﺎ، ﻟﯿﮑﻦ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺣﮑﻢ ﻋﺪﻭﻟﯽ ﮐﯽ ﺟﺮﺍٔﺕ ﻧﮧ ﮨﻮﺋﯽ۔

ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭﻧﮯ 17 ﻻﮐﮫ ﻣﺮﺑﻊ ﻣﯿﻞ ﮐﺎ ﻋﻼﻗﮧ ﻓﺘﺢ ﮐﯿﺎ، ﻟﯿﮑﻦ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﻈﺎﻡ ، ﮐﻮﺋﯽ ﺳﺴﭩﻢ ﻧﮧ ﺩﮮ ﺳﮑﺎ، ﺟﺐ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﻮ ﺍﯾﺴﮯ ﺳﺴﭩﻢ ﺩﯾﮯ ﺟﻮ ﺍٓﺝ ﺗﮏ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺭﺍﺋﺞ ﮨﯿﮟ،

✅ ﺳﻦ ﮨﺠﺮﯼ ﮐﺎ ﺍﺟﺮﺍ ﮐﯿﺎ۔
✅ ﺟﯿﻞ ﮐﺎ ﺗﺼﻮﺭ ﺩﯾﺎ۔
✅ ﻣﻮٔﺫﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﻨﺨﻮﺍﮨﯿﮟ ﻣﻘﺮﺭ ﮐﯿﮟ
✅ ﻣﺴﺠﺪﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﮐﺎ ﺑﻨﺪ ﻭ ﺑﺴﺖ ﮐﺮﺍﯾﺎ. 
✅ﭘﻮﻟﺲ ﮐﺎ ﻣﺤﮑﻤﮧ ﺑﻨﺎﯾﺎ۔
✅ ﺍﯾﮏ ﻣﮑﻤﻞ ﻋﺪﺍﻟﺘﯽ ﻧﻈﺎﻡ ﮐﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﺭﮐﮭﯽ۔
✅ ﺍٓﺏ ﭘﺎﺷﯽ ﮐﺎ ﻧﻈﺎﻡ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﺮﺍﯾﺎ۔
✅ ﻓﻮﺟﯽ ﭼﮭﺎﻭٔﻧﯿﺎﮞ ﺑﻨﻮﺍﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻓﻮﺝ ﮐﺎ ﺑﺎﻗﺎﻋﺪﮦ ﻣﺤﮑﻤﮧ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﯿﺎ۔
✅ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺩﻭﺩﮪ ﭘﯿﺘﮯ ﺑﭽﻮﮞ، ﻣﻌﺬﻭﺭﻭﮞ، ﺑﯿﻮﺍﻭٔﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﺍٓﺳﺮﺍﻭٔﮞ ﮐﮯ ﻭﻇﺎﺋﻒ ﻣﻘﺮﺭ ﮐﯿﮯ۔
✅ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺣﮑﻤﺮﺍﻧﻮﮞ، ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﻋﮩﺪﯾﺪﺍﺭﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﻭﺍﻟﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﺛﺎﺛﮯ ﮈﮐﻠﯿﺌﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎﺗﺼﻮﺭ ﺩﯾﺎ۔
✅ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺑﮯ ﺍﻧﺼﺎﻓﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺟﺠﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﺰﺍ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﺎ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺑﮭﯽ ﺷﺮﻭﻉ
ﮐﯿﺎ
✅ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﮐﻼﺱ ﮐﯽ ﺍﮐﺎﻭٔﻧﭩﺒﻠﭩﯽ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯽ۔
✅ ﺍٓﭖ ﺭﺍﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﺗﺠﺎﺭﺗﯽ ﻗﺎﻓﻠﻮﮞ ﮐﯽ ﭼﻮﮐﯿﺪﺍﺭﯼ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔

ﺍٓﭖ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺟﻮ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﻋﺪﻝ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﻭﮦ ﺭﺍﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮯ ﺧﻮﻑ ﺳﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔

ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﻓﺮﻣﺎﻥ ﺗﮭﺎ ’’ﻗﻮﻡ ﮐﺎ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﻗﻮﻡ ﮐﺎ ﺳﭽﺎ ﺧﺎﺩﻡ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔‘‘

ﺍٓﭖ ﮐﯽ ﻣﮩﺮ ﭘﺮ ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ
’’ﻋﻤﺮ ! ﻧﺼﯿﺤﺖ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﻮﺕ ﮨﯽ ﮐﺎﻓﯽ ﮨﮯ‘‘۔

◾ ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﺩﺳﺘﺮﺧﻮﺍﻥ ﭘﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﺩﻭ ﺳﺎﻟﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﮯ ﮔﺌﮯ۔
◾ ﺍٓﭖ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺳﺮ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺍﯾﻨﭧ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﺳﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
◾ ﺍٓﭖ ﺳﻔﺮ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺟﮩﺎﮞ ﻧﯿﻨﺪ ﺍٓﺟﺎﺗﯽ ﺗﮭﯽ، ﺍٓﭖ ﮐﺴﯽ ﺩﺭﺧﺖ ﭘﺮ ﭼﺎﺩﺭ ﺗﺎﻥ ﮐﺮ ﺳﺎﯾﮧ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﻮ ﺟﺎﺗﮯ
ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﻧﻨﮕﯽ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺩﺭﺍﺯ ﮨﻮﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
◾ ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﮐﺮﺗﮯ ﭘﺮ 14ﭘﯿﻮﻧﺪ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﭘﯿﻮﻧﺪﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺳﺮﺥ ﭼﻤﮍﮮ ﮐﺎ ﭘﯿﻮﻧﺪ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ۔ ﺍٓﭖ ﻣﻮﭨﺎ ﮐﮭﺮﺩﺭﺍ ﮐﭙﮍﺍ ﭘﮩﻨﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍٓﭖ ﮐﻮ ﻧﺮﻡ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺭﯾﮏ ﮐﭙﮍﮮ ﺳﮯ ﻧﻔﺮﺕ ﺗﮭﯽ۔
◾ ﺍٓﭖ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺟﺐ ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﻋﮩﺪﮮ ﭘﺮ ﻓﺎﺋﺰ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺛﺎﺛﻮﮞ ﮐﺎ ﺗﺨﻤﯿﻨﮧ ﻟﮕﻮﺍ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺎﺱ ﺭﮐﮫ ﻟﯿﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﻋﮩﺪﮮ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺛﺎﺛﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ ﺗﻮ ﺍٓﭖ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﮐﺎﻭٔﻧﭩﺒﻠﭩﯽ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
◾ ﺍٓﭖ ﺟﺐ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﮔﻮﺭﻧﺮ ﺑﻨﺎﺗﮯ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﻧﺼﯿﺤﺖ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﮐﺒﮭﯽ ﺗﺮﮐﯽ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﭘﺮ ﻧﮧ ﺑﯿﭩﮭﻨﺎ، ﺑﺎﺭﯾﮏ ﮐﭙﮍﮮ ﻧﮧ ﭘﮩﻨﻨﺎ، ﭼﮭﻨﺎ ﮨﻮﺍ ﺍٓﭨﺎ ﻧﮧ ﮐﮭﺎﻧﺎ، ﺩﺭﺑﺎﻥ ﻧﮧ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﻓﺮﯾﺎﺩﯼ ﭘﺮ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﺑﻨﺪ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﺎ۔
◾ ﺍٓﭖ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﻇﺎﻟﻢ ﮐﻮ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮﺩﯾﻨﺎ ﻣﻈﻠﻮﻣﻮﮞ ﭘﺮ ﻇﻠﻢ ﮨﮯ.
◾ ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﯾﮧ ﻓﻘﺮﮦ ﺍٓﺝ ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﺣﻘﻮﻕ ﮐﮯ ﭼﺎﺭﭨﺮ ﮐﯽ ﺣﯿﺜﯿﺖ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ۔ "ﻣﺎﺋﯿﮟ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﺍٓﺯﺍﺩ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ، ﺗﻢ ﻧﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﮐﺐ ﺳﮯ ﻏﻼﻡ ﺑﻨﺎﻟﯿﺎ۔"

◾ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﮐﺜﺮ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﻮﮞ۔ "ﻋﻤﺮ ﺑﺪﻝ ﮐﯿﺴﮯ ﮔﯿﺎ۔‘‘

◾ ﺍٓﭖ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﺗﮭﮯ، ﺟﻨﮩﯿﮟ ’’ﺍﻣﯿﺮ ﺍﻟﻤﻮﻣﻨﯿﻦ ‘‘ ﮐﺎ ﺧﻄﺎﺏ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ۔

ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﺬﺍﮨﺐ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﺼﻮﺻﯿﺖ ﮨﮯ ، *ﺍﺳﻼﻡ ﮐﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﺧﺼﻮﺻﯿﺖ ﻋﺪﻝ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻭﮦ ﺷﺨﺼﯿﺖ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺍﺱ ﺧﺼﻮﺻﯿﺖ ﭘﺮ ﭘﻮﺭﺍ ﺍﺗﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﻋﺪﻝ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻋﺪﻝ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻋﺪﻝِ ﻓﺎﺭﻭﻗﯽ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔

ﺍٓﭖ ﺷﮩﺎﺩﺕ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﻣﻘﺮﻭﺽ ﺗﮭﮯ، ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺍٓﭖ ﮐﯽ ﻭﺻﯿﺖ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﻭﺍﺣﺪ ﻣﮑﺎﻥ ﺑﯿﭻ ﮐﺮ ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﻗﺮﺽ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍٓﭖ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﻭﺍﺣﺪ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﺗﮭﮯ ﺟﻮ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﮔﺮ ﻓﺮﺍﺕ ﮐﮯ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﺘﺎ ﺑﮭﯽ ﺑﮭﻮﮎ ﺳﮯ ﻣﺮﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺳﺰﺍ ﻋﻤﺮ( ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ) ﮐﻮ ﺑﮭﮕﺘﻨﺎ ﮨﻮﮔﯽ۔

ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﻋﺪﻝ ﮐﯽ ﯾﮧ ﺣﺎﻟﺖ ﺗﮭﯽ۔ ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺍٓﭖ ﮐﯽ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﮐﮯ ﺩﻭﺭ ﺩﺭﺍﺯ ﻋﻼﻗﮯ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﭼﺮﻭﺍﮨﺎ ﺑﮭﺎﮔﺘﺎ ﮨﻮﺍ ﺍٓﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﭼﯿﺦ ﮐﺮ ﺑﻮﻻ ’’ ﻟﻮﮔﻮ! ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔‘‘
ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺣﯿﺮﺕ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ’’ﺗﻢ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﺳﮯ ﮨﺰﺍﺭﻭﮞ ﻣﯿﻞ ﺩﻭﺭ ﺟﻨﮕﻞ ﻣﯿﮟ ﮨﻮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﺎﻧﺤﮯ ﮐﯽ ﺍﻃﻼﻉ
ﮐﺲ ﻧﮯ ﺩﯼ۔‘‘

ﭼﺮﻭﺍﮨﺎ ﺑﻮﻻ ’’ﺟﺐ ﺗﮏ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺯﻧﺪﮦ ﺗﮭﮯ، ﻣﯿﺮﯼ ﺑﮭﯿﮍﯾﮟ ﺟﻨﮕﻞ ﻣﯿﮟ ﺑﮯ ﺧﻮﻑ ﭘﮭﺮﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﺭﻧﺪﮦ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺍٓﻧﮑﮫ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﻧﮩﯿﮞﺪﯾﮑﮭﺘﺎ ﺗﮭﺎ، ﻟﯿﮑﻦ ﺍٓﺝ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺍﯾﮏ ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﮭﯿﮍ ﮐﺎ ﺑﭽﮧ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﮭﯿﮍﯾﮯ ﮐﯽ ﺟﺮﺍٔﺕ ﺳﮯ ﺟﺎﻥ ﻟﯿﺎ ﮐﮧ ﺍٓﺝ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ۔‘‘

ﻣﯿﮟ ﺩﻧﯿﺎ ﺑﮭﺮ ﮐﮯ ﻣﻮﺭﺧﯿﻦ ﮐﻮ ﺩﻋﻮﺕ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﻮﮞ، ﻭﮦ ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ ﮐﻮ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ
ﻓﺎﺭﻭﻕ ﮐﮯ ﺣﻀﻮﺭ ﭘﮩﺎﮌ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮐﻨﮑﺮ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩﮮ ﮔﺎ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ ﮐﯽ ﺑﻨﺎﺋﯽ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻭﻓﺎﺕ ﮐﮯ 5ﺳﺎﻝ ﺑﻌﺪ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﮔﺌﯽ*، ﺟﺐ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺟﺲ ﺟﺲ ﺧﻄﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﺟﮭﻨﮉﺍ ﺑﮭﺠﻮﺍﯾﺎ، ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﺍٓﺝ ﺑﮭﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﮐﺒﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﮐﺒﺮ ﮐﯽ ﺻﺪﺍﺋﯿﮟ ﺍٓﺗﯽ ﮨﯿﮟ، ﻭﮨﺎﮞ ﺍٓﺝ ﺑﮭﯽ ﻟﻮﮒ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺳﺠﺪﮦ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔

ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺻﺮﻑ ﮐﺘﺎﺑﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﭧ ﮐﺮ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ، ﺟﺐ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﺑﻨﺎﺋﮯ ﻧﻈﺎﻡ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ 245 ﻣﻤﺎﻟﮏ ﻣﯿﮟ ﺍٓﺝ ﺑﮭﯽ ﮐﺴﯽ ﻧﮧ ﮐﺴﯽ ﺷﮑﻞ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﯿﮟ۔

ﺍٓﺝ ﺑﮭﯽ ﺟﺐ ﮐﺴﯽ ﮈﺍﮎ ﺧﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﻂ ﻧﮑﻠﺘﺎ ﮨﮯ، ﭘﻮﻟﺲ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺳﭙﺎﮨﯽ ﻭﺭﺩﯼ ﭘﮩﻨﺘﺎ ﮨﮯ، ﮐﻮﺋﯽ ﻓﻮﺟﯽ ﺟﻮﺍﻥ 6 ﻣﺎﮦ ﺑﻌﺪ ﭼﮭﭩﯽ ﭘﺮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﮐﺴﯽ ﺑﭽﮯ، ﻣﻌﺬﻭﺭ، ﺑﯿﻮﮦ ﯾﺎ ﺑﮯ ﺍٓﺳﺮﺍ ﺷﺨﺺ ﮐﻮ ﻭﻇﯿﻔﮧ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻣﻌﺎﺷﺮﮦ، ﻭﮦ ﺳﻮﺳﺎﺋﭩﯽ، ﺑﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﻮ ﻋﻈﯿﻢ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ، ﻭﮦ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﺎ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﺳﮑﻨﺪﺭ ﻣﺎﻥ ﻟﯿﺘﯽ ﮨﮯ، ﻣﺎﺳﻮﺍﺋﮯ ﺍﻥ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺟﻮ ﺍٓﺝ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮐﻤﺘﺮﯼ ﮐﮯ ﺷﺪﯾﺪ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﻣﯿﮟ ﮐﻠﻤﮧ ﺗﮏ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔

*ﻻﮨﻮﺭ ﮐﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰ ﺳﺮﮐﺎﺭ ﮐﻮ ﺩﮬﻤﮑﯽ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ’’ ﺍﮔﺮ ﮨﻢ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﭘﮍﮮ ﺗﻮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﭼﻨﮕﯿﺰ ﺧﺎﻥ ﯾﺎﺩ ﺍٓﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ۔‘‘
ﺍﺱ ﭘﺮ ﺟﻮﺍﮨﺮ ﻻﻝ ﻧﮩﺮﻭ ﻧﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ ’’ﺍﻓﺴﻮﺱ ﺍٓﺝ ﭼﻨﮕﯿﺰ ﺧﺎﻥ ﮐﯽ ﺩﮬﻤﮑﯽ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﯾﮧ ﺑﮭﻮﻝ ﮔﺌﮯ، ﺍﻥ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ( ﺣﻀﺮﺕ ) ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ( ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ) ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ۔‘‘

جن کے بارے میں مستشرقین اعتراف کرتے ہیں کہ "اسلام میں اگر ایک عمر اور ہوتا تو آج دنیا میں صرف اسلام ہی دین ہوتا."

ﮨﻢ ﺍٓﺝ ﺑﮭﯽ ﯾﮧ ﺑﮭﻮﻟﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﮨﻢ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﮯ، ﺟﻦ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ،
’’ﻣﯿﺮﮮ ﺑﻌﺪ ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﺒﯽ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻋﻤﺮ ﮨﻮتا-

Shia bhaiyon ki mohabbat ahle bait ki bajaye sirf Hazrat Hussain sei kyon.

शीआ भाइयों की मुहब्बत अहल ए बैत की बजाय सिर्फ़ हज़रत हूसैन रजी. से ही क्यूँ है ❓

शीआ सैय्यदना हज़रत अली रजी. की अवलादमें से सिर्फ़ सैय्यदना हुसैन रजी.से ही  मुहब्बत क्यूँ करते हैं ❓
क्या आपने अपने आपसे कभी ये सवाल किया है ❓

क्या  कभी आपको शीआओं की इस हरकत पर ताज्जुब हुआ ❓

इस मुआमलेमें हम आपके सामने ऐसी मालुमात  रख रहें हैं के आप दंग रह जाएँगे, इस्लामी दुनियाके लिए ये किसी जटकेसे कम नहीं और अरबके शीआओंके लिए हैरतंगेज़ मालुमात ❗️❗️❗️

सवाल का जवाब देने से पहले सैय्यदना अली रजी. की अवलादके बारेमें जानना ज़रूरी है।
सैय्यदना अली रजी. के बेटोंके नाम:

१.🔴हसन बिन अली बिन अबि तालिब
२.🔴हुसैन बिन अली बिन अबि तालिब 
३.🔴मुहसिंन बिन अली बिन अबि तालिब
४.🔴अब्बास बिन अली बिन अबि तालिब
५.🔴हिलाल बिन अली बिन अबि तालिब
६.🔴अब्दुल्लाह बिन अली बिन अबि तालिब
७.🔴जाफ़र बिन अली बिन अबि तालिब
८.🔴उस्मान बिन अली बिन अबि तालिब 
९.🔴ऊबैदुल्लाह बिन अली बिन अबि तालिब
१०🔴अबूबकर बिन अली बिन अबि तालिब
११🔴उमर बिन अली बिन अबि तालिब 
( १० और ११ नम्बर पर जो नाम है उनको छुपानेके लिए शीआ इनको अली ए अकबर और अली ए असग़र कहते है अगर इनके नाम शीआ लोग ज़ाहिर कर दे तो पूरी शियत  ख़त्म हो जाय)

क्या आपने शीआ की किताबोंमें या हसन, या हिलाल, या मोहसिन लिखा देखा ❓
या फिर  हज़रत अली रजी.  की शहादत पर इन्होंने कभी मातम किया हो जिनके बेटे होनेकि वजहसे हूसैन रजी.का  शुमारअहल ए बैत में होता है ❓
क्या हुसैन रजी. के अलावह बकिया सब अहल ए बैत नहीं ❓

क्यूँ सिर्फ़ या हूसैन ही पुकार कर   पिटा जाता है ❓

और क्यूँ हूसैनसे ही मदद माँगी जाती है ❓

जबकि ये  भी इल्म में है की हसन और हूसैन दोनो भाई हैं इनकी माँ फ़ातिमा ज़ोहरा हैं और इनके वालीद अली बिन अबि तालिब रजी. हैं और सब अहल ए बैत में से है.

क्या ये सवाल आपके दिमाग़ में कभी पैदा  नहीं  हुए ❓
क्या अरब के शीआओंने  इसके बारेमें सोचा की आख़िरकार अहल ए बैतमें से हुसैन ही क्यूं ❓

इस से पहले कि हम इस सवाल का जवाब दें एक चौंकानेवाली मालुमात आपको दे दी जाय❗️❗️❗️

क्या आप जानते हैं शीओंके १२ इमाम सिर्फ़ हुसैनकी ही नसलसे है❗️❗️❗️

और शीआ हज़रत हुसैन रजी.का अहतराम, हज़रत हसन रजी. से और सैय्यादना हज़रत अली रजी.की बकिय्या अवलादसे ज़्यादा करते हैं क्यूँकि हुसैन रजी. की शादी फ़ारसी ईरानी खातूनसे हुई जो ईरानके बादशाह यज़दगरदकी बेटी थी जिसका नाम शहरबानु था, मुसलमानोने किसराको शिकस्त देने के बाद शाह ए किसराको क़त्ल  कर दिया और उसकी शहज़ादियाँ क़ैद कर ली गईं,

उसके बाद खलिफ़तुल मूसलीमिन सैयदना उमर फ़ारूक़ रजी.ने किसराकी शाहजादियोंमें से शहरबानुको  हज़रत हुसैन रजी.के सुपुर्द कर दीया  जिससे उन्होंने निकाह कर लिया और यही ईरानी जज़्बात है जिनकी वजहसे शीआ हुसैन रजी.से और शहरबानुकी अवलाद १२ इमामोंसे दूसरे अरबी अहल ए बैतके मुक़ाबले ज़्यादा मुहब्बत करते है, ईरानी नसल होने की वजह से और  इनका दावा अहल ए बैतसे अरब होने की वजह से मुहब्बत महेज़ धोका और फ़रेब है, वरना अली रजी. और फ़ातिमा रजी. की अवलाद तो और भी है❗️❗️❗️


आपने अबू लूलू फ़िरोज़का नाम सुना होगा ये वो शख़्स है जो फ़ारस/ईरान का रहने वाला था इस लानतीने सैयदना उमर फ़ारूक़ रजी.को दौराने नमाज़ शहीद किया था इसको फ़ारसी/ईरानी बड़ी ताज़िमसे बाबा अबू लूलू फ़िरोज़ कहते है और उसकी मज़ार बना कर उसको मुक़द्दस जान कर उसकी इबादत करते है, शीआ उसके नामका फीरोज़ा अपनी अँगूठियाँमें जड़ा कर पहनते है,

शीआओं के क़ुरानमें एक सुरह है जिसका नाम लूलू है,

और सहीह बात ये है के शीआ अहल ए बैतमें से सिर्फ़ उनसे मुहब्बत करते है जो किसरा/फ़ारस/ईरानकी अवलाद है और उन १२ इमामों से मुहब्बत करते है जिनको ये लोग अम्बिया अलयही सलातू व सलाम  से भी अफ़ज़ल और मासूम समजते है जिनका ख़ून और पसीना ईरानी नसल का है, रसूलुल्लाह ﷺ की निस्बत की वजहसे नहीं❗️❗️❗️

मतलब साफ़ है शीआ सिर्फ़ अहल ए बैत किसरा/फ़ारस/ईरान से मुहब्बत करते है अहल ए बैत ए रसूल ﷺ से हरगिज़ नहीं!

हमारे बरेलवी भाई भी सोचें की मुहर्रम को मनाना हम अहल ए सुन्नत का अमल होता तो सारे अहल ए बैतको याद किया जाता, कहीं ये ख़ालिस शीओंकी नक़ल तो नहीं की सिर्फ़ या हुसैन, या हुसैन , या हुसैन पिटा ज़ाता है और बड़े बड़े शुहदा जिसमें शहीदों के सरदार अमीर ए हमज़ा जो चाचा है हुसैनके और हज़रत अली जो वालीद है  हुसैनके  उनकी शहादत भुला दी जाती है ❗️❗️❗️

(तर्जुमा यूसुफ़ सिद्दिक)

13/10/2016

Quran gehri sonch kei sath parhnei ka hukm

Allah Azwajal ka hukm hai kei her Musalmaan Quran ko gehrey sonch kei saath parhey...
 *قرآن کا مطالبہ ہے کہ ہر انسان اس کے مطالب میں غور کرے لہٰذا یہ سمجھنا کہ قرآن میں تدبر کرنا صرف اماموں اور مجتہدوں ہی کے لئے ہے صحیح نہیں ہے، البتہ تدبر اور تفکر کے درجات علم و فہم کے درجات کی طرح مختلف ہوں گے، ائمہ مجتہدین کا تفکر ایک ایک آیت سے ہزاروں مسائل نکالے گا عام علماء کا تفکر ان مسائل کے سمجھنے تک پہنچے گا، عوام اگر قرآن کا ترجمہ اور تفسیر اپنی زبان میں پڑھ کر تدبر کریں تو اس سے اللہ تعالیٰ کی عظمت و محبت اور آخرت کی فکر پیدا ہوگی، جو کلید کامیابی ہے، البتہ عوام کے لئے غلط فہمی اور مغالطوں سے بچنے کے لئے بہتر یہ ہے کہ کسی عالم سے قرآن کو سبقاً سبقاً پڑھیں، یہ نہ ہو سکے تو کوئی مستند و معتبر تفسیر کا مطالعہ کریں اور جہاں کوئی شبہ پیش آئے اپنی رائے سے فیصلہ نہ کریں اور ہر علماء سے رجوع کریں۔*



« معارف القرآن »
— مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللّٰه علیہ

pakistan ko deoband aur nadwah ki zaroorat nahi

پاکستان کو دیوبند اور ندوۃ کی ضرورت نہیں؟
Pakistan ko Deoband  aur Nadwah ki zarurat nahi

تین بڑے نظامِ تعلیم

از : مفتی محمد تقی عثمانی

تقسیم  سے پہلے ہندوستان میں تین بڑے نظامِ تعلیم معروف تھے: ایک دارالعلوم دیوبند کا نظامِ تعلیم، دوسرا مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کا نظامِ تعلیم اور تیسرے دارالعلوم ندوۃ العلماء کا نظامِ تعلیم۔ حضرت والد ماجدؒ نے تقریباً 1950ء میں ایک موقع پر جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے یہ بات فرمائی تھی:

’’پاکستان بننے کے بعد درحقیقت نہ ہمیں علی گڑھ کی ضرورت ہے، نہ ندوہ کی ضرورت ہے، نہ دارالعلوم دیوبند کی ضرورت ہے، بلکہ ہمیں ایک تیسرے نظامِ تعلیم کی ضرورت ہے جو ہمارے اَسلاف کی تاریخ سے مربوط چلا آرہا ہے۔‘‘
بظاہر سننے والوں کو یہ بات بڑی تعجب خیز معلوم ہوتی تھی کہ دارالعلوم دیوبند کا ایک مستند مفتی اعظم اور دارالعلوم دیوبند کا ایک سپوت یہ کہے کہ ہمیں پاکستان میں دیوبند کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ ہمیں ایک نئے نظامِ تعلیم کی ضرورت ہے۔

حضرت والد ماجدؒ نے جو بات فرمائی وہ درحقیقت ایک بہت گہری بات ہے اور اُسی کے نہ سمجھنے کے نتیجے میں ہمارے ہاں بڑی عظیم غلط فہمیاں پیدا ہوئیں۔ ہندوستان میں جو تین نظامِ تعلیم جاری تھے، وہ درحقیقت فطری نہیں تھے، بلکہ انگریز کے لائے ہوئے نظام کا ایک نتیجہ اور انگریز کی لائی ہوئی سازشوں کا ایک ردّعمل تھا، ورنہ اس سے پہلے رائج مسلمانوں کے صدیوں پرانے نظامِ تعلیم پر غور کیا جائے تو اس میں مدرسے اور اسکول کی کوئی تفریق نہیں ملے گی۔ وہاں شروع سے لے کر اور انگریز کے زمانے تک مسلسل یہ صورت حال رہی کہ مدارس یا جامعات میں بیک وقت دونوں تعلیمیں دینی اور عصری تعلیم دی جاتی تھیں۔

صورت حال یہ تھی کہ شریعت نے جو بات مقرر کی کہ عالم بننا ہر ایک آدمی کے لیے فرضِ عین نہیں، بلکہ فرضِ کفایہ ہے۔ یعنی ضرورت کے مطابق کسی بستی یا کسی ملک میں علماء پیدا ہوجائیں تو باقی سب لوگوں کی طرف سے وہ فریضہ ادا ہوجاتا ہے، لیکن دین کی بنیادی معلومات حاصل کرنا فرضِ عین ہے، یہ ہر انسان کے ذمے فرض ہے۔ اُن مدارس کا نظام یہ تھا کہ اُن میں فرضِ عین کی تعلیم بلاامتیاز ہر شخص کو دی جاتی تھی، ہر شخص اُس کو حاصل کرتا تھا، جو مسلمان ہوتا تھا۔ البتہ جس کو علمِ دین میں اختصاص حاصل کرنا ہو، اُس کے لیے الگ مواقع تھے۔ جو کسی عصری علم میں اختصاص حاصل کرنا چاہتا تھا، اُس کے لیے مواقع الگ تھے۔

گزشتہ سال میں اور برادرم معظم حضرت مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب مراکش میں تھے۔ میں نے پچھلے سال دیکھا تھا اور حضرت نے اِس سال اُس کی زیارت کی۔ مراکش کو انگریزی میں ’’موروکو‘‘ کہتے ہیں، اُس کا ایک شہر ہے جس کا نام ’’فاس‘‘ ہے۔ میں ’’فاس‘‘ کے شہر میں پچھلے سال گیا تھا اور اِس سال حضرت بھی تشریف لے گئے تھے۔ وہاں ’’جامعۃ القرویین‘‘ کے نام سے ایک جامعہ آج تک کام کر رہی ہے۔ اگر ہم اسلامی تاریخ کی مشہور اسلامی جامعات کا جائزہ لیں تو چار بنیادی اسلامی جامعات ہماری تاریخ میں نظر آتی ہیں۔ اُن میں سب سے پہلی مراکش کی جامعہ ’’القرویین‘‘ ہے۔ دوسری تیونس کی جامعہ ’’زیتونہ‘‘ ہے۔ تیسری مصر کی ’’جامعۃ الازہر‘‘ ہے اور چوتھی ’’دارالعلوم دیوبند‘‘ ہے۔ تاریخی ترتیب اسی طرح ہے۔

اس میں سب سے پہلی اسلامی یونیورسٹی جو مراکش کے شہر ’’فاس‘‘ میں قائم ہوئی، تیسری صدی ہجری کی جامعہ ہے۔ ابھی تک ایسی کوئی ترتیب میرے سامنے نہیں آئی کہ یہ صرف عالم اسلام ہی کی نہیں، بلکہ دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی ہے۔ اس تیسری صدی یونیورسٹی کے بارے میں اُس کی تاریخ کے کتابچے میں یہ بات لکھی ہوئی کہ اُس وقت جامعۃ القرویین میں جو علوم پڑھائے جاتے تھے اُن میں اسلامی علوم، تفسیر، حدیث، فقہ اور اس کے ساتھ ساتھ طب، ریاضی، فلکیات جنہیں ہم آج عصری علوم کہتے ہیں، وہ سارے علوم پڑھائے جاتے تھے۔ ابن خلدونؒ، ابن رُشدؒ، قاضی عیاضؒ اور ایک طویل فہرست ہمارے اکابر کی ہے جنہوں نے جامعۃ القرویین میں درس دیا۔ اُن کے پاس یہ تاریخ آج بھی محفوظ ہے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں ابن خلدونؒ درس دیا کرتے تھے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں ابن رُشدؒ درس دیا کرتے تھے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں قاضی عیاضؒ نے درس دیا ہے۔ یہاں ابن عربی مالکیؒ نے درس دیا ہے۔ تاریخ کی یہ ساری باتیں اُن کے پاس آج بھی محفوظ ہیں۔ یہ دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی ہے، اس لحاظ سے کہ چھوٹے چھوٹے مدارس تو ہر جگہ ہوں گے، لیکن جامعۃ القرویین ایک یونیورسٹی کی حیثیت رکھتی تھی جس میں تمام دینی اور عصری علوم پڑھائے جاتے تھے۔

اس یونیورسٹی میں آج بھی تیسری اور چوتھی صدی کی سائنٹفک ایجادات کے نمونے رکھے ہیں۔ اُس زمانے میں اسی جامعۃ القرویین سے فارغ لوگوں نے جو ایجادات گھڑی وغیرہ کی کیں، اُن ایجادات کے نمونے بھی وہاں پر موجود ہیں۔ آپ تیسری صدی ہجری تصورکیجیے۔ یہ تیسری صدی ہجری کی یونیورسٹی ہے۔ اس میں اسلامی علوم کے بادشاہ بھی پیدا ہوئے، اور وہیں سے ابن رُشد فلسفی بھی پیدا ہوا اور وہیں سے بڑے بڑے سائنسدان بھی پیدا ہوئے۔ ہوتا یہ تھا کہ دین اسلام کا فرضِ عین علم سب کو اکٹھا دیا جاتا تھا۔

aap hussaini hain ya Shia hain?

*आप हुसैनी है या शीया* ?

एक सुन्नी ही हुसैनी हो सकता है, कोई भी शीया हरगीज़ हुसैनी नहीं हो सकता!!!

हसनैन रदी. के नाम पर आप अपने आपको शीयत की हीमायत करने से बचाईये!!!

कहीं आप अनजाने में शीयत की ताईद तो नहीं कर रहे ❓

आप ईन दोनो के बीच का फ़र्क़ कैसे जानेंगे ❓

*आइए आपको सीधे करबला के मैदान में ले चलते हैं*

हज़रते हुसैन रदी. खुद यहाँ मौजूद हैं,

हज़रते हुसैन रदी. ६० साल के हैं ३० साल के जवान नहीं,

हज़रते हुसैन रदी. अपने वतन से बहोत दूर सफ़र में हैं,

हज़रते हुसैन रदी. के सीर पर वालीद साहब हज़रत अली रदी. और बड़े भाई हज़रत हसन रदी. का साया भी नहीं है अकेले हैं,

ईतने सारे नागवार हालात होने के बावजूद यजी़द को हक पर नहीं पाया तो हाथ नहीं दिया बैत नहीं की,

घर-बार  लुटा दीआ लेकिन हाथ नहीं दिया बैत नहीं की,

मासुम बच्चे तक शहीद हो गए लेकिन हाथ नहीं दिया बैत नहीं की,

अपनी जान तक क़ुर्बान कर दी लेकिन हाथ नहीं दिया बैत नहीं की,

*अब और थोड़ा पीछे मदीना चलते हैं *

हज़रते हुसैन रदी. ३० साल के जवान हैं ६० साल के नहीं,

हज़रते हुसैन रदी. अपने वतनमें अमन से हैं सफ़र में नहीं,

हज़रते हुसैन रदी. के सीर पर वालीद साहब हज़रत अली रदी. और बड़े भाई हज़रत हसन रदी. का साया मौजूद है अकेले नहीं,

सारे मुआफीक हालात हैं मतलब कोई दबाव नहीं!!!

हज़रत अबूबक्र सीद्दीक रदी. ख़लीफ़ा बने हाथ दे दिया
बैत कर ली,

हज़रत ऊमर फारुक रदी. ख़लीफ़ा बने हाथ दे दिया बैत कर ली,

हज़रत ऊस्मान गनी रदी. ख़लीफ़ा बने हाथ दे दिया बैत कर ली,

*हुसैनीयत ये है के जहां हुसैन रदी. ने हाथ दे दिया वहां दे दो  और जहां नहीं दिया वहां मत दो*

*जहां हुसैन रदी. ने हाथ दिया वहां हाथ न देना शीयत है हुसैनीयत नहीं*

अब आप बताईए आप हुसैनी है या शीआ ?

अल्लाह हम सबकी हुसैन रदी. के रास्ते से भटक कर एसे हर काम से हीफाज़त फरमाए जीस से हुसैनीयत की मुख़ालिफ़त और शीयत की ताईद होती हो,

अल्लाह रब्बुल ईज़्जत हम सबका हश्र कल कयामत के दीन जन्नत के सरदार हसनैन करीमैन के साथ फरमाए,

आमीन आमीन आमीन या रब्बुल आलमीन,

तर्जुमा व तर्तीब
ख़ादिम युसूफ सीद्दीक वापी,
२३/८/२०