Monday, November 28, 2022

درویش اور کمسن چیلا

🪷ایک کہانی بڑی پرانی ، 🪷
ہر دور میں ہے کام آنی)

ایک درویش اور اس کا کمسن چیلا شہر سے دور کسی جنگل میں رہتے تھے۔ درویش عام طور پر یاد ِخدا میں مصروف رہتا تھا اور چیلا آس پاس کی بستیوں سے بھیک مانگ کر اس کی خدمت کیا کرتا تھا۔ درویش کا دل انسانیّت کے درد سے لبریز تھا اور وہ صبح شام انتہائی سوزوگداز کے ساتھ یہ دعا کیا کرتا تھا *“میرے پروردگار! میں ایک بے بس اور بے وسیلہ انسان ہوں اور تیرے بندوں کی کوئی خدمت نہیں کر سکتا، لیکن اگر تو مجھے بادشاہ بنا دے تو میری زندگی کی ہر سانس بھوکے اور ننگے انسانوں کی خدمت کے لیے وقف ہوگی ۔ میں یتیموں، بیواؤں اور نادار لوگوں کی سرپرستی کروں گا۔ میں محتاجوں کے لیے لنگر خانے کھولوں گا۔ میں عدل و انصاف کا بول بالا کروں گا۔ رشوت خور اور بددیانت اہلکاروں کو عبرت ناک سزائیں دوں گا۔ مظلوم مجھے اپنی ڈھال سمجھیں گے اور ظالم میرے نام سے کانپیں گے۔ میں نیکی اور بھلائی کو پروان چڑھاوں گا۔!*
کمسن چیلے کو یہ یقین تھا کہ کسی دن مرشد کی دعا ضرور سنی جائے گی اور پھر ان کے دن آجائیں گے۔ لیکن وقت گزرتا گیا، چیلا جوان ہو گیا اور نیک دل درویش میں بڑھاپے کے آثار ظاہر ہونے لگے۔ رفتہ رفتہ چیلے کے اعتقاد میں فرق آنے لگا، یہاں تک کہ جب درویش دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتا تو وہ اس کے قریب بیٹھنے کی بجائے چند قدم دور بیٹھتا اور دبی زبان سے یہ دعا شروع کر دیتا۔

*“میرے پروردگار! اب میرا مرشد بوڑھا ہو چکا ہے۔ اسکے بال سفید ہو چکے ہیں۔ دانت جھڑ چکے ہیں اور بینائی جواب دے چکی ہے۔ اب وہ مجھے تخت کی بجائے قبر سے زیادہ قریب دکھائی دیتا ہے۔ اگر تجھے ایک نیک دل آدمی کا بادشاہ بننا پسند نہیں تو مجھے بادشاہ بنا دے۔ میں یہ عہد کرتا ہوں کہ میرا ہر کام اپنے مرشد کی خواہشات کے الٹ ہوگا۔ میں صدق دل سے عہد کرتا ہوں کہ میں ناداروں کو زیادہ نادار اور بے بسوں کو زیادہ بے بس اور مظلوموں کو زیادہ مظلوم بنانےکی کوشش کروں گا۔ میں چوروں اور ڈاکوؤں کی سرپرستی کروں گا۔ میں شرفاء کو ذلیل کروں گا۔ اور ذلیلوں کو عزت کی کرسیوں پر بیٹھاؤں گا۔ میں راشی اور بد دیانت اہلکاروں کی سرپرستی کروں گا۔!!*
ابتداء میں یہ ہوشیار چیلا چُھپ چُھپ کر دعائیں کیا کرتا تھا، لیکن آہستہ آہستہ اسکا حوصلہ بڑھتا گیا اور کچھ مدت بعد اس کی حالت تھی کہ جب مرشد دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتا تو وہ بھی اس کے قریب بیٹھ کر ہی بلند آواز میں اپنی دعا دہرانی شروع کر دیتا۔ درویش اپنی آنکھوں میں آنسو بھر کر یہ کہتا کہ اگر بادشاہ بن جاؤں تو عدل و انصاف نیکی اور سچائی کا بول بالا کروں اور چیلا قہقہ لگا کر یہ کہتا کہ اگر میں بادشاہ بن جاؤں تو ظلم اور بدی کا جھنڈا بلند کروں۔ درویش کہتا کہ میرے خزانے سے معذور اور نادار لوگوں کو وظائف ملیں گے اور چیلا  کہتا کہ میں ان پر سخت جرمانے عائد کروں گا۔ درویش اسے ڈانٹ ڈپٹ کرتا اور بسا اوقات ڈنڈا اٹھا کر پیٹنا شروع کردیتا، لیکن چیلا اپنی روایتی نیازمندی کے باوجود اپنے موقف پر ڈٹا رہا۔!!
پھر وہی ہوا جو پرانے وقتوں میں ہوا کرتا تھا۔ یعنی ملک کا بادشاہ چل بسا اور تخت کے کئی دعویدار ایک دوسرے کے خلاف تلواریں سونت کر میدان میں آگئے۔ دور اندیش وزیر نے راتوں رات تمام دعوے داروں کو جمع کر کے یہ تجویز پیش کی کہ اب ملک کو خانہ جنگی سے بچانے کی ایک ہی صورت باقی رہ گئی ہے اور وہ یہ کہ شہر کے تمام دروازے بند کر دیے جائیں اور علی الصباح باہر سے جو آدمی سب سے پہلے مشرقی دروازے پر دستک دے، اسے بادشاہ تسلیم کر لیا جائے۔!!
یہ تجویز باتفاق رائے منظور کی گئی۔ پھر یہ ہوا کہ نیک دل درویش کا چیلا بھیک مانگنے کے لیے کسی چھوٹی موٹی بستی کا رخ کرنے کے بجائے ملک کے دارالحکومت کی طرف جا نکلا۔ پو پھٹتے ہی اس نے شہر کے مشرقی دروازے پر دستک دی، پہریداروں نے دروازہ کھول کر اسے سلامی دی اور امراء اسے ایک جلوس کی شکل میں شاہی محل کی طرف لے گئے۔!!
نئے بادشاہ نے تخت پر رونق افروز ہوتے ہی یہ حکم جاری کیا کہ میری سلطنت میں جتنے درویش، فقیر اور سادھو ہیں، انھیں کسی تاخیر کے بغیر گرفتار کرلیا جائے۔ اس حکم کی تعمیل کی گئی، لیکن خوش قسمتی سے نئے بادشاہ کے مرشد کو کسی طرح یہ پتہ چل گیا کہ اس ہوشیار چیلے کی دعا قبول ہوگئی ہے اور وہ سرحد عبور کر کے کسی دوسرے ملک میں چلا گیا۔!!
اسکے بعد جو ہوا، وہ کسی تشریح یا تبصرے کا محتاج نہیں۔ نئے بادشاہ نے پوری مستعدی اور دیانتداری کے ساتھ اپنے تمام وعدے پورے کیے۔ نہروں کا پانی بند کر دیا گیا۔ کنوئیں اور تالاب غلاظت سے بھر دیے گئے۔ چوروں اور ڈاکوؤں کو جیلوں سے نکال کر حکومت کا کاروبار سونپ دیا گیا۔ نیک خدا پرست انسانوں پر ظلم کی انتہا کر دی گئی۔۔۔!!

       ☘️ *سُنّی فرنٹ* ☘️

Sunday, November 27, 2022

40 طرح ک سدقہ

🪷 _40 TARAH KA SADQA_ 🪷
*40 طرح کا صدقہ*
ایک دفعہ ضرور پڑھ لیں.
ان شاءاللہ بہت فائدہ ہوگا.
1. دوسرے کو نقصان پہنچانے سے بچنا صدقہ ہے۔ [بخاری: 2518]
2. اندھے کو راستہ بتانا صدقہ ہے۔ [ابن حبان: 3368]
3. بہرے سے تیز آواز میں بات کرنا صدقہ ہے۔ [ابن حبان: 3368]
4. گونگے کو اس طرح بتانا کہ وہ سمجھ سکے صدقہ ہے۔ [ابن حبان: 3377]
5. کمزور آدمی کی مدد کرنا صدقہ ہے۔ [ابن حبان: 3377]
6. راستے سے پتھر,کانٹا اور ہڈی ہٹانا صدقہ ہے۔ [مسلم: 1007]
7. مدد کے لئے پکارنے والے کی دوڑ کر مدد کرنا صدقہ ہے۔ [ابن حبان: 3377]
8. اپنے ڈول سے کسی بھائی کو پانی دینا صدقہ ہے۔ [ترمذی: 1956]
9. بھٹکے ہوئے شخص کو راستہ بتانا صدقہ ہے۔ [ترمذی: 1956]
10. لا الہ الا الله کہنا صدقہ ہے۔ [مسلم: 1007]
https://chat.whatsapp.com/9Vtj3Hu7KxB6uX254VlXjX

11. سبحان الله کہنا صدقہ ہے۔ [مسلم: 1007]
12. الحمدلله کہنا صدقہ ہے۔ [مسلم: 1007]
13. الله اکبر کہنا صدقہ ہے۔ [مسلم: 1007]
14. استغفرالله کہنا صدقہ ہے۔ [مسلم: 1007]
15. نیکی کا حکم دینا صدقہ ہے۔ [مسلم: 1007]
16. برائی سے روکنا صدقہ ہے۔ [مسلم: 1007]
17. ثواب کی نیت سے اپنے گھر والوں پر خرچ کرنا صدقہ ہے۔ [بخاری: 55]
18. دو لوگوں کے بیچ انصاف کرنا صدقہ ہے۔ [بخاری: 2518]
19. کسی آدمی کو سواری پر بیٹھانا یا اس کا سامان اٹھا کر سواری پر رکھوانا صدقہ ہے ۔ [بخاری: 2518]
20. اچھی بات کہنا صدقہ ہے۔ [بخاری: 2589]
21. نماز کے لئے چل کر جانے والا ہر قدم صدقہ ہے۔ [بخاری: 2518]
22. راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا صدقہ ہے۔ [بخاری: 2518]
23. خود کھانا صدقہ ہے۔ [نسائی - کبری: 9185]
24. اپنے بیٹے کو کھلانا صدقہ ہے۔ [نسائی - کبری: 9185]
25. اپنی بیوی کو کھلانا صدقہ ہے۔ [نسائی - کبری: 9185]
26. اپنے خادم کو کھلانا صدقہ ہے۔ [نسائی - کبری: 9185]
27. کسی مصیبت زدہ حاجت مند کی مدد کرنا صدقہ ہے۔ [نسائی: 253]
28. اپنے بھائی سے مسکرا کر ملنا صدقہ ہے۔ [ترمذی: 1963]
29. پانی کا ایک گھونٹ پلانا صدقہ ہے۔ [ابو یعلی: 2434] 
30. اپنے بھائی کی مدد کرنا صدقہ ہے۔ [ابو یعلی: 2434] 
31. ملنے والے کو سلام کرنا صدقہ ہے۔ [ابو داﺅد: 5243]
32. آپس میں صلح کروانا صدقہ ہے۔ [بخاری - تاریخ: 259/3]
33. تمہارے درخت یا فصل سے جو کچھ کھائے وہ تمہارے لئے صدقہ ہے۔ [مسلم:  1553]
34. بھوکے کو کھانا کھلانا صدقہ ہے۔ [بیہقی - شعب: 3367] 
35. پانی پلانا صدقہ ہے۔ [بیہقی - شعب: 3368]
36. دو مرتبہ قرض دینا ایک مرتبہ صدقہ دینے کے برابر ہے۔ [ابن ماجہ: 3430]
37. کسی آدمی کو اپنی سواری پر بٹھا لینا صدقہ ہے۔ [مسلم: 1009]
38. گمراہی کی سر زمین پر کسی کو ہدایت دینا صدقہ ہے۔ [ترمذی: 1963]
39. ضرورت مند کے کام آنا صدقہ ہے۔ [ابن حبان: 3368]
40. علم سیکھ کر مسلمان بھائی کو سکھانا صدقہ ہے۔ [ابن ماجہ: 243]
صرف آپ ہی پڑھ کر آگے نہ بڑھ جائیں بلکہ یہ تحریر صدقہ جاریہ ہے ، شیئر کرکے باقی احباب تک پہنچائیے ، شکریہ, اس میں آپ کا بمشکل ایک لمحہ صرف ہو گا لیکن ہو سکتا ہے اس ایک لمحہ کی اٹھائی ہوئی تکلیف سے آپ کی شیئر کردہ تحریر ہزاروں لوگوں کے لیے سبق آموز ثابت ہو .. 
جزاک اللہ خیرا....

سانپ کا گوشت اونٹ کا پسندیدہ غذا

سانپ کا گوشت اونٹ کی پسندیدہ غذا ہے اور اسے سانپ کا گوشت بے حد اشتیاق دیتا ہے تو وہ اسے کھانا شروع کر دیتا ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ وہ کھانے کی ابتداء اس کی دم سے کرتا ہے پھر آہستہ آہستہ اسے پورا کھا جاتا ہے ، سانپ کا گوشت سخت گرم ہوتا ہے جب اونٹ اسے کھ ا لیتا ہے تو اسے سخت پیاس محسوس ہوتی ہے اور وہ پیاس بھجانے کے لیے پانی کے کسی تالاب پر جاتا ہے اللہ نے تکوینی شکل میں اسے الھام کر رکھا ہے کہ اگر اس نے اس وقت پانی پیا تو سانپ کا زہر اسکے پورے بدن میں پھیل جائے گا ،
https://chat.whatsapp.com/9Vtj3Hu7KxB6uX254VlXjX

باوجود تالاب پر پہنچ کر بھی کچھ دیر کے لیے پانی نہیں پیتا ، پھر وہ زور زور سے بلبلانے لگ پڑتا ہے ، ایسے لگتا ہے جیسے وہ کیسی سخت مشکل میں مبتلا ہے اور کسی کو اپنی مدد کے لیے پکار رہا ہے ، اس وقت اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگ پڑتے ہیں
اللہ نے اس کے پیوٹوں کے نیچے دو چھوٹے چھوٹے گڑھے بنائے ہوئے ہیں ، اس کے آنسو آنکھوں سے نکل کر ان گڑھوں میں جمع ہوتے ہیں اور یوں سانپ کا سارا زہر آنسو بن کر آنکھوں سے باہر آجاتا ہے عقل مند ساربان اس گڑھے میں جمع شدہ پانی کو کسی صاف شیشی میں بھر لیتے ہیں ، وہ زہریلا پانی سانپ اور بچھو کے کٹے کا تریاق دیتا ہے-

ایک طالبہ کہ واقعہ

🪷 *ایک عبرت آموز واقعہ*🪷 

 اسکول کی ایک طالبہ ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتی ہے: جب ہم ثانویہ کے مرحلے میں تھیں۔ ہم کچھ سہیلیاں ناشتہ کے وقفہ میں ایک ساتھ بیٹھتیں اور ہم سب اپنا اپنا ناشتہ ایک ساتھ اس طرح رکھتی کہ کسی کو معلوم نہیں ہوتا کہ کون کیا لایا ہے۔

ایک غريب ونادار بچی تھی جو ناشتے میں کچھ بھی نہیں لاتی تھی۔ میں نے اسے اپنے ساتھ ناشتے میں بیٹھنے کے لئے آمادہ کرلیا۔ کیونکہ ہم لوگوں میں کسی کو نہیں معلوم ہوتا تھا کہ کس کا کون سا ناشتہ ہے۔ 

اسی طرح مدرسے کے ایام گزرتے رہے یہاں تک کہ ثانویہ سے ہماری فراغت کا وقت قریب آگیا۔ اسی دوران اس طالبہ کے والد کا انتقال ہوگیا۔ اس کے والد کے فوت ہوتے ہی اس کے حالات بھی تبدیل ہوگئے یعنی اب وہ پہلے سے بہتر زندگی گزارنے لگی۔ اب وہ اپنے لباس پر بھی توجہ دیتی اور ناشتہ بھی لانے لگی تھی۔ یعنی اب وہ پہلے سے بہتر زندگی جینے لگی تھی۔
https://chat.whatsapp.com/9Vtj3Hu7KxB6uX254VlXjX
یہ سب دیکھ کر میں نے سمجھا کہ شاید باپ کی میراث سے اسے کچھ مال و زر حاصل ہوا ہوگا۔

 ایک مرتبہ میں اس کے ساتھ بیٹھی اور اس سے دریافت کرنے لگی: کیا بات ہے؟ اس تبدیلی کا آخر راز کیا ہے؟
اتنا سنتے ہی وہ میرا ہاتھ پکڑ کر رونے لگی اور کہنے لگی: اللہ کی قسم ہم لوگ رات کو بھوکے سوتے تھے اور مجھے شدت کی بھوک لگی رہتی تھی۔ اس لئے میں صبح سویرے مدرسے جانے کا انتظار کرتی تھی تاکہ آپ لوگوں کے ساتھ کچھ کھا کر بھوک مٹا سکوں۔ اور میری ماں رات کی روٹی چھپا کر رکھ دیتی تھی تاکہ اس سے صبح میرے چھوٹے بھائیوں کا ناشتہ ہو سکے۔ اس لئے میں صبح سویرے جان بوجھ کر مدرسہ نکل جاتی تھی تاکہ میرے بھائی میرے حصے کا بھی ناشتہ کر لیں۔

اور اب جب کہ میرے والد فوت ہو چکے ہیں۔ اب گرد وپیش کے ہمارے عزیز و اقارب، جاننے والے اور دوست واحباب سب ہمارا بڑا خیال رکھنے لگے ہیں کیونکہ اب ہم یتیم ہو چکے ہیں۔ 
"میری بڑی تمنا تھی کہ میرے ابو جان اپنی زندگی میں پیٹ بھر کر کھانا کھا لیتے"۔  اس نے بعینہ یہی الفاظ کہے۔ اس نے بڑی حسرت بھری آواز میں یہ الفاظ کہے۔ اس کے الفاظ کے ساتھ اس کے آنسو بھی رواں تھے۔

 اس نے کہا ہمارے ابو جان جب فوت ہوئے تب لوگوں کو معلوم ہوا کہ ہم واقعی محتاج اور ضرورتمند ہیں۔
وہ یہ سب باتیں کہتے ہوئے بلک بلک کر رو رہی تھی اور میں اس کے ان آنسوؤں کی گرمی آج بھی محسوس کر رہی ہوں۔ 

نصیحت:
کیا ضروری ہے کہ غریب انسان جب مر جائے تبھی مالداروں کو اس کے یتیم بچوں کی غربت کا احساس ہو؟
لوگوں کو کیا ہو گیا ہے آج؟  کہاں ہیں ان کے صدقے؟ کہاں ہیں ان کی زکات؟ اور کہاں ہیں صلہ رحمی؟ کہاں ہے پریشان حال کی امداد؟ اور کہاں گئی شفقت و ہمدردی؟
پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ہر روز صبح کو دو فرشتے نازل ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک کہتا ہے: اے اللہ! خرچ کرنے والے کو نعم البدل عطا فرما اور دوسرا کہتا ہے: اے اللہ! نہ خرچ کرنے والے کے مال کو تباہ و برباد کر دے۔  (صحیح بخاری حدیث نمبر 1374)

ایسے گھرانوں کی دیکھ بھال کریں جو اپنی خود داری کے سبب کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ اپنے عزیز و اقارب، اپنے پڑوسیوں اور دوست احباب کی خبرگیری کریں۔ ان میں ایسے لوگ بھی ہو سکتے ہیں جنہیں نہ جاننے والے مالدار و خوشحال سمجھتے ہیں جبکہ وہ اپنی عزت نفس کی خاطر کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ 
اللہ کی قسم ان میں سے کچھ کی زندگی ایسے کرب و آلام سے گزر رہی ہوتی ہے کہ جس کی آہ و کراہ کو اللہ کے سوا کوئی نہیں سنتا۔
ایسے لوگوں پر خرچ کرو اللہ تمہارے اوپر بھی خرچ کرے گا۔
صدقہ دو۔ اپنے مال کی زکاۃ ادا کرو اور کبھی فقروفاقہ سے نہ ڈرو۔

صدقہ کے ذریعے اپنا ہاتھ ڈھیلا رکھو اللہ تعالی تمہارے اوپر سے مصائب و آفات کو دور کرے گا۔

یقین مانو صدقہ لینے والے سے زیادہ تمہیں خود صدقہ دینے کی ضرورت ہے۔

عربی سے منقول

نفس انسانی کے 7 اقسام

🪷نفسِ انسانی کی اقسام🪷 
🕯️ قران شریف کی نظر میں)

💚اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِہٖ وَسَـــِلّمُ💚❤️

*ایک خوبصورت تحریر جسے پڑھ کہ ہم اپنے نفس کی حالت کے متعلق جان سکتے ہیں اور اپنی باطنی حالت میں مذید بہتری کی کوشش کر سکتے ہیں۔*

💚اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِہٖ وَسَـــِلّمُ💚❤️

نفس کی سات اقسام ہیں جنکے نام درج ذیل ہیں :
*1۔ نفس امارہ*
*2۔ نفس لوامہ*
*3۔ نفس ملھمہ*
*4۔ نفس مطمئنہ*
*5۔ نفس راضیہ*
*6۔ نفس مرضیہ*
*7۔ نفس کاملہ*
نفس امارہ پہلا نفس ہے یہ سب سے زیادہ گناہوں کی طرف مائل کرنے والا اور دنیاوی رغبتوں کی جانب کھینچ لے جانے والا ہے۔ ریاضت اور مجاہدہ سے اس کی برائی کے غلبہ کو کم کر کے جب انسان نفس امارہ کے دائرہ سے نکل آتا ہے تو لوامہ کے مقام پر فائز ہو جاتا ہے۔ اس مقام پر دل میں نور پیدا ہو جاتا ہے۔ جو باطنی طور پر ہدایت کا باعث بنتا ہے
جب نفس لوامہ کا حامل انسان کسی گناہ یا زیادتی کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے تو اس کا نفس اسے فوری طور پر سخت ملامت کرنے لگتا ہے اسی وجہ سے اسے لوامہ یعنی سخت ملامت کرنے والا کہتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس نفس کی قسم کھائی ہے :
وَلَا اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِO
’’اور میں نفس لوامہ کی قسم کھاتا ہوں۔‘‘
القيامة، 75 : 2

💚اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِہٖ وَسَـــِلّمُ💚❤️

تیسرا نفس نفس ملہمہ ہے۔ جب بندہ ملہمہ کے مقام پر فائز ہوتا ہے تو اس کے داخلی نور کے فیض سے دل اور طبعیت میں نیکی اور تقوی کی رغبت پیدا ہو جاتی ہے چوتھا نفس مطمئنہ ہے جو بری خصلتوں سے بالکل پاک اور صاف ہو جاتا ہے اور حالت سکون و اطمینان میں آجاتا ہے۔
یہ نفس بارگاہ الوہیت میں اسقدر محبوب ہے کہ حکم ہوتا ہے :
يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُO ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ.
’’اے نفس مطمئنہ اپنے رب کی طرف لوٹ آ۔‘‘
الفجر، 89 : 27، 28
💚اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِہٖ وَسَـــِلّمُ💚❤️

یہ نفس مطمئنہ اولیاء اللہ کا نفس ہے یہی ولایت صغریٰ کا مقام ہے۔ اس کے بعد نفس راضیہ، مرضیہ اور کاملہ یہ سب ہی نفس مطمئنہ کی اعلیٰ حالتیں اور صفتیں ہیں اس مقام پر بندہ ہر حال میں اپنے رب سے راضی رہتا ہے اس کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے۔
ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةًO
’’اے نفس مطمئنہ اپنے رب کی طرف لوٹ آ اس حال میں کہ تو اس سے راضی ہو۔‘‘
الفجر، 89 : 28

💚اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِہٖ وَسَـــِلّمُ💚❤️

نفس سے مراد کسی چیز کا وجود یا حقیقت یا ذات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نفس امارہ کی مخالفت کا حکم دیا ہے اور ان لوگوں کی تعریف کی ہے جو اپنے نفس کے خلاف چلتے ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَویٰ۝ فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ہِیَ الْمَاْویٰ۝ (اور جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا اور نفس کو خواہش سے روکا، اس کا ٹھکانہ جنت ہے)۔
وَمَا اُبَرِّیُٔ نَفْسِیْ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌ بِاالسُّوٓئِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْ۝ (اور میں اپنے نفس کو بے قصور نہیں بتاتا۔ بے شک نفس تو برائی کا حکم دینے والا ہے مگر جس پر میرا رب رحم کرے)۔
حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے نیکی کا ارادہ رکھتا ہے تو اس کو اس کے نفس کے عیوب سے خبردار کرتا ہے“۔

💚اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِہٖ وَسَـــِلّمُ💚❤️

اور آثار میں ہے کہ اللہ عزوجل نے حضرت داؤد علیہ السلام کو وحی کی ”اے داؤد نفس کی مخالفت کرو کیونکہ میری محبت نفس کی مخالفت میں ہے۔“
حدیث مبارکہ ہے کہ رسول اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ایک سوال فرمایا کہ ایسے رفیق کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جس کا یہ ہو کہ اگر اس کا اعزاز و اکرام کرو، کھانا کھلاؤ، کپڑے پہناؤ تو وہ تمہیں بلا اور مصیبت میں ڈال دے اور تم اگر اس کی توہین کرو، بھوکا ننگا رکھو تو وہ تمہارے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم اس سے زیادہ برا تو دنیا میں ساتھی ہوہی نہیں سکتا۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ نفس جو تمہارے پہلو میں ہے، وہ ایسا ہی ساتھی ہے“۔
ایک اور حدیث ہے کہ حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”تمہارا سب سے بڑا دشمن خود تمہارا نفس ہے جو تمہیں برے کاموں میں مبتلا کرکے ذلیل و خوار کرتا ہے اور طرح طرح کی مصیبتوں میں مبتلا کردیتا ہے۔“

💚اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِہٖ وَسَـــِلّمُ💚❤️

حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ”سب حجابوں سے بڑھ کر حجاب اپنے نفس کی پیروی کرنا ہے“ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”کہ نفس ایسی چیز ہے جو باطل سے سکون حاصل کرتا ہے۔“ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ”کفر کی بنیاد نفس کی اطاعت ہے۔“ حضرت ابو سلمان دارانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ”نفس امانت میں خیانت کرنے والا اور قرب حق سے منع کرنے والا ہے اس لیے بہترین عمل مخالفت نفس ہے۔“
💚اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِہٖ وَسَـــِلّمُ💚❤️

حضرت شیخ الشرف الدین احمد یحییٰ منیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ”نفس بھونکنے اور کاٹنے والا کتا ہے جب وہ ریاضت سے مطیع ہوجائے تو اس کا رکھنا مباح ہے۔“ اسی طرح کشف المحجوب میں ہے کہ ”نفس باغی کتا ہے جس کا چمڑا دباغ یعنی چمڑے رنگنے والا ہی پاک کرسکتا ہے۔ یعنی نفس کو مجاہدہ یا شیخ کامل ہی پاک اور صاف کرسکتا ہے۔

💚اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِہٖ وَسَـــِلّمُ💚❤️

نفس کی تین بڑی اقسام بیان کی گئی ہیں۔
1۔ نفس امارہ۔ 2۔ نفس لوامہ۔ 3۔ نفس مطمئنہ
1۔ نفس امارہ: وہ نفس جو برائی پر ابھارتا ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو حیوانیت کا نام دیا ہے کیونکہ یہ نفس انسان کو جانوروں والی حیوانیت اور سفاکیت پر ابھارتا ہے۔ یعنی جب نفس حیوانی کا قوت روحانی پر غلبہ ہوجائے تو اس کو نفس امارہ کہتے ہیں۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جناب رسول پاک صلّی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک اپنی خواہشات کو میرے لائے ہوئے احکام کے تابع نہ کردے“۔
پیر کرم شاہ الازہری لکھتے ہیں کہ ”صوفیائے کرام کا ارشاد ہے کہ نفس سرکش کو نفس امارہ بھی کہتے ہیں۔ جو امر کا مبالغہ ہے کیونکہ وہ ہروقت برے کاموں کا حکم کرتا رہتا ہے“۔ (ضیاء القرآن)
یہی خواہشات نفسانی روزانہ الوہیت کے تین سو ساٹھ لباس پہن کر سامنے آتی ہے اور بندوں کو گمراہی کی طرف بلاتی ہے۔ قران مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: اَفَرَئَیْتَ مَنِ التَّخَذَ اِلٰہَہٗ ہَوَاہُ (کیا تم نے ان لوگوں کو دیکھا جو خواہشات کو اپنا معبود بنالیتے ہیں)۔ (سورہ جاثیہ)

💚اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِہٖ وَسَـــِلّمُ💚❤️

ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے کہ: وَاتَّبِعْ ہَوَاہُ فَمَثَلُہٗ کَمَثَلِ الْکَلْبِ (جس نے اپنی خواہشات کی پیروی کی اسکی مثال کتے کی طرح ہے)۔ (اعراف)
حقیقت یہ ہے کہ ترک نفس یا ترک خواہش بندے کو امیر بنادیتی ہے اور خواہش کی پیروی امیر کو اسیر بنادیتی ہے۔ جس طرح زلیخا نے اپنے نفس کی پیروی کی، امیر تھی لیکن اسیر (قیدی) ہوگئی اور حضرت یوسف علیہ السلام نے خواہش کو ترک کیا اسیر تھے، امیر ہوگئے۔

💚اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِہٖ وَسَـــِلّمُ💚❤️

حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا ”وصول (قرب خداوندی) کیا ہے؟ کہا خواہش کی پیروی چھوڑدینا ”کیونکہ بندے کی کوئی عبادت خواہش کی مخالفت سے بڑھ کر نہیں۔ ناخن سے پہاڑ کھودنا آسان ہے مگر خواہش کی مخالفت کرنا بہت دشوار ہے۔
بعض مشائخ سے پوچھا گیا کہ اسلام کیا ہے؟ جواب دیا ”مخالفت کی تلواروں سے نفسوں کو ذبح کردینا اسلام ہے“
حضرت خواجہ ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ”عبادتوں کی کنجی فکر ہے اور اللہ رب العزت کی بارگاہ میں رسائی اور قرب کی علامت نفس اور خواہشات کی مخالفت ہے“ (مکتوبات صدی)

💚اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِہٖ وَسَـــِلّمُ💚❤️

نفس اور خواہشات کو قابو کرنے سے متعلق حضرت شیخ شرف الدین رحمۃ اللہ علیہ نے جو کچھ لکھا ہے خلاصۃً پیش ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ”نفس ہر وقت خواہشات کی طلب میں رہتا ہے اور اگر اس کی خواہشات کو پورا کردیا جائے تو ایک بہت لمبی فہرست تیار کرلیتا ہے۔“ اسلام نے انسان کی خواہشات کو دبانے کے بجائے اعتدال پر رکھنے کو پسند کیا ہے۔ عقلمند کے لیے ضروری ہے کہ نفس کو دبانے کی جدوجہد کرتا رہے لیکن یکبارگی اس پر دھاوا بول دینا اور اس کو زیرکردینا دشوار ہے بلکہ اس میں نقصان وغیرہ کا اندیشہ ہے۔ راہ اعتدال یہ ہے کہ قوت دیتے ہوئے اس پر کاموں کا بوجھ ڈالا جائے تاکہ وہ متحمل ہوسکے اور نفس کو اس حد تک کمزور کیا جائے اور سختی سے کام لیا جائے کہ وہ تمہارے حکم سے گریز نہ کرسکے۔ اس کے علاوہ جو طریقے ہیں وہ غلط ہیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ نبی پاک صلّی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ سخت ریاضت و مجاہدہ کی وجہ سے نہایت کمزور ہوگئے ہیں اور ہاتھ پاؤں ہلانے سے بھی عاجز ہیں، انکی آنکھیں اندر دھنسی گئی ہیں، تو نبی پاک صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اے عبداللہ تم پر تمہارے نفس کا بھی حق ہے۔“ اس سے معلوم ہوا کہ نفس کو ہلاک کرنا گناہ ہے۔ اس لیے ایسا طریقہ اختیار کیا جائے کہ نہ وہ انسان پر غالب ہوسکے اور نہ اسکی نافرمانی کرسکے۔ میانہ روی کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے اسے تھوڑا نرم کیا جائے تاکہ لگام دینے کے قابل ہوجائے۔ اس کے راستے کے عاملوں نے کہا کہ نفس کو نرم کرنے کی تین چیزیں ہیں۔
1۔ نفس کو خواہشات اور لذتوں سے روک دیا جائے کیونکہ جب چوپائے دانہ گھاس نہیں پاتے تو نرم ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا دانہ پانی روک دیا جائے تاکہ ساری شرارتیں غائب ہوجائیں۔
2۔ عبادت کا بھاری بوجھ اس پر لادا جائے۔
3۔ اللہ رب العزت سے مدد مانگی جائے اور اس کی بارگاہ میں پناہ تلاش کی جائے۔ وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا۔ ترجمہ: جنہوں نے ہماری راہ میں مجاہدہ کیا ہم ان کو اپنا راستہ دکھا دیتے ہیں۔ (العنکبوت 96/29)

💚اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِہٖ وَسَـــِلّمُ💚❤️

یعنی جو مجاہدہ کرتا ہے اسے مشاہدہ نصیب ہوتا ہے۔ جملہ احکام شریعت پر عمل کرنا، حلال کھانا، حرام و مشتبہ سے بچنا، فرائض و واجبات کی پابندی کرنا یہ سب مجاہدہ ہے اور جو مجاہدہ کرتا ہے اس کا اثر ضرور ظاہر ہوتا ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ گھوڑے کو ریاضت سے ایسا سدھایا جاتا ہے کہ حیوانی صفات چھوڑ کر آدمیت اختیار کرلیتا ہے اور اس کی صفتیں بدل جاتی ہیں یہاں تک کہ زمین سے کوڑا اٹھاکر سوار کو دیتا ہے اور گیند گھماتا ہے۔ اسی طرح وحشی جانوروں کو رام کرلیا جاتا ہے ایک ناپاک کتے کو مجاہدہ و تعلیم دے کر اس مرتبے پر پہنچادیا جاتا ہے کہ اس کا مارا ہوا شکار مومن کے مارے ہوئے شکار کی طرح حلال اور پاک ہوتا ہے۔
الغرض یہ کہ مجاہدہ و ریاضت بالاتفاق پسندیدہ ہے لیکن مجاہدہ کا دیکھنا یعنی (اس کا اعتبار کرنا) ایک آفت ھے

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِہٖ وَسَـــِلّمُ

(اگر تحریر پسند آئے تو لائق اور شئیر کریں تا کہ ذیادہ سے ذیادہ لوگ مستفیض ہو سکیں)

مخلص ہونا سب سے زیادہ پر کشش عمل ہے۔

🪷 *مخلص ہونا سب سے زیادہ پرکشش۔۔۔* 🪷

*مُخلص ہونا دنیا کا سب سے زیادہ پرکشش جذبہ ہے....!*
*آپ کسی کو کچھ نہیں دے سکتے،*
*مگر اچھے الفاظ تو دے سکتے ہیں نا....!!*
*الفاظ لہجہ نہیں رکھتے مگر تاثیر تو رکھتے ہیں....!

https://chat.whatsapp.com/9Vtj3Hu7KxB6uX254VlXjX
*شاید آپکے الفاظ کسی کیلئے راحت،*
*کسی کیلئے شفاء،*
*کسی کیلئے امید،*
*کسی کا مرہم*
*اور کسی کیلئے راہ نجات بن جائیں....!!*
*ایسے لوگوں کو اللہ ذریعہ بنا دیتا ہے اپنے تک پہنچنے کا....!*
*یقین جانیں،*
*وہ لوگ خوش نصیب ہوتے ہیں،*
*جن کے الفاظ لوگوں کے دلوں میں رقم ہوجاتے ہیں....!!!!*
*تو کوشش کیجئیے کہ اپنے  لفظوں سے لوگوں کو زخم نہیں مرہم دیں...🍁اچھی⚘باتیں⚘اچھی⚘یادیں🍁

حرص کا وبال

🪷 *حرص کا وبال*🪷

حریص مال جمع کرنے میں اپنی زندگی ختم کردیتا ہےاور جو مال چھوڈتا ہے وہ باقی رہ جاتا ہے اور وارث کا ہوتا ہے۔
ریشم کے کیڑے کی مانند کہ وہ جس چیز کو بناتا ہے وہ اسی کو ہلاک کردیتی ہے اور دوسرے اسی کی بنائی ہوئی چیز سے نفع حاصل کرتے ہیں۔

شاعر:ابوالفتح بستی (قدیم عربی ادب سے ماخوذ)

اقتباس: کتاب حیات الحیوانات عربی مترجم
〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰

تین فطری قانون جو کڑوا مگر سچ ہے

🪷تین فطری قوانین🪷 جو کڑوے لیکن حق ہیں 
🕯️
*پہلا قانون فطرت:*
اگر کھیت میں” دانہ” نہ ڈالا جاۓ تو قدرت اسے “گھاس پھوس” سے بھر دیتی ہے.
اسی طرح اگر” دماغ” کو” اچھی فکروں” سے نہ بھرا جاۓ تو “کج فکری” اسے اپنا مسکن بنا لیتی ہے۔ یعنی اس میں صرف “الٹے سیدھے “خیالات آتے ہیں اور وہ “شیطان کا گھر” بن جاتا ہے۔

*دوسرا قانون فطرت*:
جس کے پاس “جو کچھ” ہوتا ہے وہ” وہی کچھ” بانٹتا ہے۔
* خوش مزاج انسان “خوشیاں “بانٹتا ہے۔
* غمزدہ انسان “غم” بانٹتا ہے۔
* عالم “علم” بانٹتا ہے۔
* دیندار انسان “دین” بانٹتا ہے۔
* خوف زدہ انسان “خوف” بانٹتا ہے۔

*تیسرا قانون فطرت:*
آپ کو زندگی میں جو کچھ بھی حاصل ہو اسے “ہضم” کرنا سیکھیں، اس لۓ کہ۔ ۔ ۔
* کھانا ہضم نہ ہونے پر” بیماریاں” پیدا ہوتی ہیں۔

* مال وثروت ہضم نہ ہونے کی صورت میں” ریاکاری” بڑھتی ہے۔

*بات ہضم نہ ہونے پر “چغلی” اور “غیبت” بڑھتی ہے* ۔
 *تعریف ہضم نہ ہونے کی صورت میں “غرور” میں اضافہ ہوتا ہے۔*
* مذمت کے ہضم نہ ہونے کی وجہ سے “دشمنی” بڑھتی ہے۔
* غم ہضم نہ ہونے کی صورت میں “مایوسی” بڑھتی ہے۔
* اقتدار اور طاقت ہضم نہ ہونے کی صورت میں” خطرات” میں اضافہ ہوتا ہے۔  
🪷 *سُنّی فرنٹ گروپ*🪷