Tuesday, December 6, 2022

نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا سنت ہے

*نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا سنت ہے*


اہل السنت و الجماعت احناف کے ہاں ہاتھ باندھنے کا طریقہ یہ ہے کہ دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کی پشت پر رکھ کر، انگوٹھے اور چھنگلیا سے بائیں ہاتھ کے گٹے کو پکڑتے ہوئے تین انگلیاں کلائی پر بچھا کر ناف کے نیچے رکھتے ہیں۔امام محمد بن حسن الشیبانی فرماتے ہیں:
و یضع بطن کفہ الایمن علی رسغہ الایسر تحت السرۃ فیکون الرسغ فی وسط الکف.
[کتاب الآثار بروایۃ محمد: ج1 ص321]
ترجمہ: نمازی اپنی دائیں ہتھیلی کا اندرونی حصہ اپنی بائیں کلائی کے اوپر رکھ کر ناف کے نیچے رکھے، اس طرح گٹہ ہتھیلی کے درمیان میں ہو جائے گا۔
علامہ عینی فرماتے ہیں:
واستحسن كثير من مشايخنا…… بأن يضع باطن كفه اليمنى على كفه اليسرى ويحلق بالخنصر والإبهام على الرسغ.
[عمد ۃ القاری: ج4 ص389 باب وضع الیمنیٰ علی الیسریٰ فی الصلاۃ]
ترجمہ: ہمارے اکثر مشائخ نے اس بات کو پسند فرمایاہے کہ نمازی اپنی دائیں ہتھیلی کا اندرونی حصہ اپنی بائیں ہتھیلی (کی پشت) پر رکھے اور چھنگلیا اور انگوٹھے کے ساتھ گٹے پر حلقہ بنا لے۔
یہ موقف ان دلائل سے ثابت ہے:
1:عَنْ سَھْلِ بْنِ سَعْدٍ رضی اللہ عنہ قَالَ کَانَ النَّاسُ یُؤْمَرُوْنَ اَنْ یَّضَعَ الرَّجُلُ الْیَدَ الْیُمْنٰی عَلٰی ذِرَاعِہِ الْیُسْریٰ فِی الصَّلٰوۃِ •
(صحیح البخاری ج 1ص 102باب وضع الیمنی علی الیسریٰ)
ترجمہ: حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگوں کو اس بات کا حکم دیا جاتا تھا کہ آدمی نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں بازو پر رکھے۔
2: عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: لَاَ نْظُرَنَّ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم کَیْفَ یُصَلِّیْ؟ قَالَ فَنَظَرْتُ اِلَیْہِ قَامَ فَکَبَّرَ وَرَفَعَ یَدَیْہِ حَتّٰی حَاذَتَا اُذُنَیْہِ ثُمَّ وَضَعَ یَدَہٗ الْیُمْنٰی عَلٰی ظَھْرِکَفِّہِ الْیُسْریٰ وَالرُّسْغِ وَالسَّاعِدِ •
(صحیح ابن حبان:ص577رقم الحدیث1860،سنن النسائی:ج1ص141،سنن ابی داؤد ج 1ص105 باب تفریع استفتاح الصلوٰۃ)
ترجمہ: حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں (نے ارادہ کیا کہ) دیکھوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز کیسے پڑھتے ہیں؟ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کھڑے ہوئے، تکبیر کہی اور دونوں ہاتھ اپنے دونوں کانوں کے برابر اٹھائے، پھر اپنے دائیں ہاتھ کو اپنی بائیں ہتھیلی (کی پشت)، گٹے اور بازو پر رکھا۔
3:عَنِ ابْنِ عَبَّاس رضی اللہ عنہما اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ اِنَّا مَعْشَرُ الْاَنْبِیَائِ اُمِرْنَااَنْ نُؤَخِّرَسُحُوْرَنَا وَنُعَجِّلَ فِطْرَنَاوَاَنْ نُمْسِکَ بِاَیْمَانِنَاعَلٰی شَمَائِلِنَا فِیْ صَلٰوتِنَا•
( صحیح ابن حبان ص 555.554ذکر الاخبار عما یستحب للمرء، رقم الحدیث 1770)
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ہم انبیاء علیہم السلام کی جماعت کو اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ ہم سحری تاخیر سے کریں، افطار جلدی کریں اور نماز میں اپنے دائیں ہاتھوں سے اپنے بائیں ہاتھوں کو پکڑے رکھیں۔
4: عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ رضی اللہ عنہ قَالَ رَاَیْتُ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم وَضَعَ یَمِیْنَہٗ عَلَی شِمَالِہٖ فِی الصَّلٰوۃِ تَحْتَ السُّرَّۃِ•
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج3 ص321،322، وضع الیمین علی الشمال،رقم الحدیث 3959)
ترجمہ: حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھاکہ آپ نے نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھا۔
دلائل اہل السنت و الجماعت
قرآن مع التفسیر:
رَوَی الْاِمَامُ اَبُوْبَکَرِالْاَثْرَمُ قَالَ حَدَّثَنَااَبُوالْوَلِیْدِ الطِّیَالِسِیُّ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ عَنْ عَاصِمِ الْجَحْدَرِیِّ عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ صَبْھَانَ سَمِعَ عَلِیًّا یَقُوْلُ فِیْ قَوْلِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ{فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ} قَالَ وَضْعُ الْیُمْنٰی عَلَی الْیُسْرَیٰ تَحْتَ السُّرَّۃِ.
(سنن الاثرم بحوالہ التمہید لابن عبد البر: ج8 ص164 تحت العنوان: عبد الکریم بن ابی المخارق)
ترجمہ: حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان {فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ} کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: نماز میں دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ پرناف کے نیچے رکھاجائے۔
توثیقِ روات:
1:امام ابو بکر الاثرم احمد بن محمد بن ہانی (م273ھ): ثقۃ ، حافظ ، لہ تصانیف.
(تقریب التہذیب ص122رقم الترجمہ 103)
2:امام ابو الولید ہشام بن عبد الملک الطیالسی (م227 ھ): آپ صحاح سۃ کے راوی ہیں۔” ثقۃ ، ثبت“
(التقریب: ص603،رقم الترجمہ 7301)
3:حماد بن سلمہ (م167ھ): صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں۔”شیخ الاسلام الحافظ صاحب السنۃ“
(تذکرۃ الحفاظ ج1ص151)
4:امام عاصم الجحدری (م129ھ): ثقۃ.
(الجرح والتعدیل للرازی ج6ص؛456،رقم الترجمہ 11176)
5:امام عقبہ بن صبھان (م75ھ او82ھ): آپ صحیح بخاری اورصحیح مسلم کے راوی ہیں۔ ” ثقۃ“.
(تقریب التہذیب ص425 رقم 4640)
6: سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ: صحابی رسول وداماد رسول ہیں۔
7:امام ابن عبد البرالمالکی (م463ھ) آپ مشہور مالکی امام ہیں۔” شیخ الاسلام حافظ المغرب“
(تذکرۃ الحفاظ ج3ص217)
تو یہ روایت ”ثقۃ عن ثقۃ“ سے مروی ہے۔ لہذا اصول حدیث کی رو سے یہ حدیث بالکل صحیح ہے۔
اعتراض:
امام ابن عبد البر کی ولادت تقریباً سن 370 ہجری میں ہے اور امام ابو بکر الاثرم کی وفات سن 273 ہجری میں ہے، دونوں کے درمیان تقریباً 100 سال کا فاصلہ ہے تو یہ روایت منقطع ہوئی۔
جواب:
اولاً…… امام ابن عبد البر نے یہ روایت امام ابو بکر الاثرم کی کتاب سے نقل کی ہے اس کے لئے اتصال ضروری نہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے آج کوئی شخص صحیح البخاری سے دیکھ کر روایت ذکر کرے۔
ثانیاً…… امام ابن عبد البر نے اپنی کتاب ”التمہید“ میں کئی مقامات پر امام ابو بکر الاثرم تک سند کو ذکر فرمایا ہے۔ مثلا ایک مقام پر آپ فرماتے ہیں:
اخبر نی عبد اللہ ابن محمد یحیی قال حدثنا عبد الحمید ابن احمد البغدادی قال حدثنا الخضر بن داؤدقال حدثنا ابو بکر الاثرم الخ
(التمہید لابن عبد البر: ج1ص78 تحت باب الف فی اسماء شیوخ مالک الذین روی عنہم حدیث النبی علیہ السلام – ابراہیم بن عقبۃ)
تو امام ابن عبد البر سے لے کر امام ابو بکر الاثرم تک سند کا اتصال بھی موجود ہے۔ لہذا یہ روایت بالکل صحیح ہے۔
احادیث مرفوعہ:
حدیث نمبر1:
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم وَضَعَ يَمِينَهُ عَلَى شِمَالِهِ فِي الصَّلاَةِ تَحْتَ السُّرَّةِ•
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج3 ص321، 322، وضع الیمین علی الشمال،رقم الحدیث 3959)
ترجمہ: حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھاکہ آپ نے نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھا۔
اعتراض:
اس روایت میں ”تحت السرۃ“ کا لفظ مدرج ہے، احناف نے خود یہ لفظ بڑھایا ہے ابن ابی شیبہ کے کئی نسخوں میں یہ لفظ نہیں۔
جواب:
تحت السرہ کا لفظ کئی نسخوں میں موجود ہے۔
1:نسخہ امام قاسم بن قطلوبغا الحنفی
(درہم الصرہ ص82)
2:نسخہ شیخ محمد اکرم نصر پوری
(درہم الصرہ ص82)
3:نسخہ شیخ عبدالقادر مفتی مکہ مکرمہ
(درہم الصرہ ص82)
4:نسخہ شیخ عابد سندھی: اس کا عکس مصنف ابن ابی شیبہ بتحقیق عوامہ ج3میں موجود ہے۔
5:نسخہ قبہ محمودیہ
(در الغرۃ ص24 بحوالہ تجلیات ج4ص4)
6:امام محمد ہاشم سندھی فرماتے ہیں:
منہا لفظۃ ”تحت السرۃ“ وقد وجدت ہی فی ثلاث نسخ من مصنف ابی بکر بن ابی شیبۃ
(ترصیع الدرۃ ص4ومصنف ابن ابی شیبہ بتحقیق عوامہ)
ترجمہ: ان میں ایک لفظ ”تحت السرۃ“ ہے، میں نے خود یہ لفظ مصنف ابن ابی شیبہ کے تین نسخوں میں پایا ہے۔
7: نسخہ مصنف ابن ابی شیبہ بتحقیق شیخ محمد عوامہ
(دیکھیے مصنف ابن ابی شیبۃ:ج3ص320 تا 322. طبع مدینہ منورہ)
8: نسخہ شیخ محمد مرتضیٰ الزبیدی: اس کا عکس ملاحظہ ہومصنف ابن ابی شیبہ بتحقیق عوامہ ج3
9: نسخہ مطبوعہ مکتبہ امدادیہ فیصل آباد:
(ج1ص427رقم6باب وضع الیمین علی الشمال)
لہذا ”تحت السرۃ“ کا لفظ مدرج نہیں بلکہ ابن ابی شیبہ کے اکثر نسخوں میں موجود ہے۔
حدیث نمبر 2:
عَنْ عَلِیّ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ: قَالَ ثَلاَثٌ مِّنْ اَخْلَاقِ الْاَنْبِیَاءِ- صَلَوَاتُ اللہِ وَسَلَامُہُ عَلَیْھِمْ- تَعْجِیْلُ الْاِفْطَارِ وَ تَاخِیْرُ السُّحُوْرِ وَوَضَعُ الْکَفِّ عَلَی الْکَفِّ تَحْتَ السُّرَّۃِ.
(مسند زید بن علی ص: ص219 باب الافطار. رقم الحدیث300)
ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تین چیزیں انبیاء علیہ السلام کے اخلاق میں سے ہیں: (۱) روز ہ جلدی افطار کرنا، (۲) سحری دیر سے کرنا اور (۳) نماز میں(دائیں) ہتھیلی کو (بائیں) ہتھیلی پر رکھ کر ناف کے نیچے رکھنا۔
اعتراض:
1: ”مسند زید“ اہل سنت کی کتاب نہیں، بلکہ شیعوں کی کتاب ہے.
2: ”مسند زید“کا بنیادی راوی ابو خالد عمر و بن خالد الواسطی مجروح راوی ہے۔
جواب:
ہر شق کا جواب پیش خدمت ہے:
جواب شق اول:
اولاً...... ”مسند زید“ (المعروف المجموع الفقہی) شیعوں کی نہیں بلکہ سنیوں کی کتاب ہے۔ اس پر چند قرائن پیش ہیں:
[۱]:اس میں وضو کرتے ہوئے پاؤں کو دھونے کا ذکر ہے۔ (ص53) جبکہ شیعہ پاؤں کو دھونے کے بجائے پاؤں پر مسح کرتے ہیں۔
[۲]:اس میں شروع نماز کے علاوہ پوری نماز میں رفع یدین نہ کرنے کا ذکر ہے۔ (ص88) جبکہ شیعہ نماز کے اندر اور سلام کے وقت رفع یدین کرتے ہیں۔
[۳]: اس میں تراویح کا ذکر ہے۔ (ص158) جبکہ شیعہ اس کے سرے سے منکر ہیں۔
[۴]:اس میں سحری تاخیر سے کھانے اور افطاری جلدی کرنے کا ذکر ہے۔ (ص211) جبکہ شیعہ کا عمل اس کے برعکس ہے۔
[۵]:اس میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے والی روایت موجود ہے۔ (ص211) جبکہ شیعہ ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں۔
اور بھی بہت سے حوالہ جات جمع کیے جا سکتے ہیں۔ ان حوالہ جات سے ثابت ہوا کہ یہ اہل السنت کی کتاب ہے۔
ثانیاً...... اس کتاب کی اکثر احادیث کی تائید دیگر کتب اہل السنت سے بھی ہوتی ہے۔ مثلاً
(۱) حدیث نمبر 1 کی تائید.... از مؤطا امام مالک حدیث نمبر32، صحیح بخاری حدیث نمبر158، 162، 183، صحیح مسلم حدیث نمبر236
(۲) حدیث نمبر 67کی تائید...از صحیح مسلم حدیث نمبر1389، سنن ابن ماجۃ حدیث نمبر725، مسند احمد حدیث نمبر13815
(۳) حدیث نمبر68 کی تائید ... ازمؤطا امام مالک حدیث نمبر1، صحیح البخاری حدیث نمبر499، سنن ابی داؤد حدیث نمبر394
(۴) حدیث نمبر70 کی تائید... از صحیح مسلم حدیث نمبر648، سنن النسائی حدیث نمبر859، سنن ابن ماجۃ حدیث نمبر1257
(۵) حدیث نمبر78 کی تائید... از سنن الترمذی حدیث نمبر3، سنن ابی داؤد حدیث نمبر61، سنن ابن ماجۃ حدیث نمبر275
(۶) حدیث نمبر85 کی تائید... از جامع الترمذی حدیث نمبر312، سنن ابی داؤد حدیث نمبر824، سنن النسائی حدیث نمبر919
(۷) حدیث نمبر102 کی تائید... از مؤطا امام مالک حدیث نمبر149، صحیح البخاری حدیث نمبر590، صحیح مسلم حدیث نمبر
(۸) حدیث نمبر104 کی تائید... از صحیح مسلم حدیث نمبر673، سنن الترمذی حدیث نمبر235، سنن النسائی حدیث نمبر783
(۹) حدیث نمبر106 کی تائید... از مسند احمد حدیث نمبر18641، مصنف ابن ابی شیبۃ حدیث نمبر3526
(۱۰) حدیث نمبر108 کی تائید... از سنن الترمذی حدیث نمبر230، صحیح ابن حبان حدیث نمبر2200، مصنف عبد الرزاق حدیث نمبر377
اس کے علاوہ بے شمار تائیدات موجود ہیں۔ یہ بھی اس بات کی قوی دلیل ہیں کہ یہ سنیوں کی کتاب ہے۔ غیر مقلدین کا اس کو شیعوں کی کتاب کہہ کر انکار کرنا غلط ہے۔
جواب شق دوم:
اولاً... مقدمہ کتاب میں شائع کنندہ شیخ عبد الواسع بن یحییٰ الواسعی نے ابو خالد الواسطی کے حالات ذکر کیے اور ان پر کی گئی جروح کا جواب دیا ہے۔ (دیکھیے مقدمہ کتاب از ص11 تا ص15)
یہی وجہ ہے کہ مصر کے مفتی اعظم اور اپنے دور کے بڑے عالم شیخ محمد بخیت مطیعی نے اس کتاب کی سند کو صحیح قرار دیا۔ فرماتے ہیں:
بالسند الصحیح الی الامام الشہید زید بن علی الخ.
(مقدمہ کتاب مسند زید: ص36)
ثانیاً... محدثین کا قاعدہ ہے کہ جس کتاب کی نسبت اپنے مصنف کی طرف مشہور ہو[کہ یہ کتاب فلاں مصنف کی ہے]تو مصنف سے لے کر ہم تک اس کی سند دیکھنے کی حاجت نہیں رہتی۔یہ شہرت اس سند کے دیکھنے سے بے نیاز کردیتی ہے۔ چنانچہ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
لان الکتاب المشہور الغنی بشہرتہ عن اعتبار الاسناد مناا لی مصنفہ
(النکت لابن حجر ص56)
اور یہ قاعدہ ان محدثین و محققین کے ہاں پایا جاتا ہے؛ امام سخاوی )فتح المغیث ج1ص44(،امام ابن حجر )النکت ص56(،علامہ جزائری )توجیہ النظر ص378(،امام سیوطی )تدریب الراوی ج1ص147(،امام کرمانی)شرح بخاری ج1ص7(
اورمسند زید(المعروف المجموع الفقہی) کا امام زید بن علی کی کتاب ہونا واضح ہے۔ سر دست چند حوالہ جات چند محققین اور خود غیر مقلدین کے حوالہ جات پیش خدمت ہیں جنہوں نے اس کتاب کو حضرت امام زید کی کتاب مانا ہے:
1: علامہ شوکانی...
(نیل الاوطار للشوکانی: ج1 ص297، ج2 ص244)
2: عمر رضا کحالہ....
(معجم المؤلفین: ج4 ص190)
3: غلام احمد حریری غیرمقلد...
(تاریخ تفسیرو مفسرین:ص550)
لہذا نیچے والی سند دیکھنے کی حاجت ہی نہیں۔ اس لیے اس اعتراض کو لے کرکتاب کا انکار کرنا غلط ہے۔
حدیث نمبر 3:
حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ زِيَادِ بْنِ زَيْدٍ السُّوَائِيِّ ، عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ: مِنْ سُنَّةِ الصَّلاَةِ وَضْعُ الأَيْدِي عَلَى الأَيْدِي تَحْتَ السُّرَرِ.
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج 3ص324 ،وضع الیمین علی الشمال، رقم الحدیث 3966)
ترجمہ: حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: (دائیں) ہاتھوں کو (بائیں) ہاتھوں پرناف کے نیچے رکھنا نماز کی سنت ہے۔
فائدہ: صحابی جب ”سنت“ کا لفظ مطلق بولے تو مراد حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت ہوتی ہے۔ تصریحات ملاحظہ ہوں:
1: قال ابن الصلاح: وهكذا قول الصحابي : ( من السنة كذا ) فالأصح أنه مسند مرفوع لأن الظاهر أنه لا يريد به إلا سنة رسول الله صلى الله عليه و سلم•
(مقدمۃابن الصلاح: ص28)
ترجمہ: علامہ ابن صلاح فرماتے ہیں: صحابی کے قول ”من السنة كذا“ کا صحیح مطلب یہ ہے کہ اس سے مراد حدیث مسند مرفوع ہے کیونکہ یہ بات ظاہر ہے کہ صحابی ”سنت“ کا لفظ بول کر اس سے سنت رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہی مراد لیتا ہے۔
2: قال الشافعی رضی اللہ عنہ: واصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم لا یقولون بالسنۃِ والحقِّ الا لسُنۃِ رسولِ للہ صلی اللہ علیہ وسلم•
(کتاب الام ج1 ص479)
ترجمہ: امام شافعی فرماتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ ”سنت“ اور ”حق“ کے الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کے لیے ہی استعمال فرماتے تھے۔
3: وقال العینی: قول علي (ان من السنة) هذا اللفظ يدخل في المرفوع عندهم وقال أبو عمر في التَّقَصِّي واعلم أن الصحابي إذا أطلق اسم السنة فالمراد به سنة النبي صلی اللہ علیہ و سلم•
(عمدۃ القاری ج4 ص389)
ترجمہ: علامہ عینی رحمہ اللہ نے فرماتے ہیں: سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ”ان من السنۃ“ والے الفاظ محدثین کے نزدیک حدیث مرفوع میں داخل ہیں۔ محدث ابو عمر یوسف بن عبد اللہ ابن عبد البر نے اپنی کتاب ”التقصی لحدیث المؤطا و شیوخ الامام مالک“ میں فرمایا کہ کوئی صحابی جب مطلقاً سنت کا لفظ استعمال فرمائے تو اس سےنبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت ہی مراد ہوتی ہے۔
4: قال جمال الدین ا لزیلعی: وَاعْلَمْ أَنَّ لَفْظَةَ السُّنَّةِ يَدْخُلُ فِي الْمَرْفُوعِ عِنْدَهُم
(نصب الرایۃ: ج1 ص393 باب وضع الیمنیٰ علی الیسریٰ فی الصلاۃ)
ترجمہ: علامہ جمال الدین زیلعی فرماتے ہیں کہ محدثین کے نزدیک ”سنت“ کا لفظ حدیث مرفوع میں داخل ہے۔
5: مبشر احمد ربانی غیر مقلد لکھتے ہیں: یہ بات اصول حدیث میں واضح ہے کہ جب صحابی کسی امر کے بارے میں کہے کہ یہ سنت ہے تو اس سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہی ہوتی ہے۔
(آپ کے مسائل اور ان کا حل ج2 ص142)
شبہ:
غیر مقلدین کہتے ہیں کہ اس کی سند میں ایک راوی عبدالرحمن بن اسحاق الکوفی ہے جو کہ ضعیف ہے۔
جواب نمبر1:
اصول ہے کہ حدیث سے استدلال اس حدیث کی صحت کی دلیل ہے۔
1:علامہ ابن الہمام رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
المجتہد اذا استدل بحدیث کان تصحیحاً لہ•
(التحریر لابن الہمام بحوالہ رد المحتار: ج7 ص83)
ترجمہ: مجتہد جب کسی حدیث سے استدلال کرے تو وہ اس کی طرف سے حدیث کی تصحیح شمار ہوتی ہے۔
2: علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
وقد احتج بھذا الحدیث احمد وابن المنذر وفی جزمہما بذالک دلیل علی صحتہ عندہما.
( التلخیص الحبیر لابن حجر،ج 2،ص143 تحت رقم الحدیث 807)
ترجمہ: اس حدیث کو امام احمد اور امام ابن المنذر نے دلیل بنایا ہےاوران دونوں کا اس حدیث کو پختگی کے ساتھ دلیل بنانا اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک یہ حدیث صحیح ہے۔
امام احمد اور امام ابن المنذر نے اس حدیث کو دلیل بنایا ہے اور اس حدیث پر ان دونوں کا اعتماد اس بات کی دلیل ہے کہ یہ حدیث ان کے نزدیک صحیح ہے۔
3: محدث و فقیہ علامہ ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فی جز م کل مجتہد بحدیث دلیل علی صحتہ عندہٗ.
(قواعد فی علوم الحدیث ،ص58)
ترجمہ: کسی مجتہد کا کسی حدیث پر اعتماد کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ حدیث اس مجتہد کے نزدیک صحیح ہے۔
اس اصول کے تحت درج ذیل ائمہ نے اس روایت سے استدلال کیا ہے جو دلیل ہے کہ یہ روایت صحیح ہے۔
1:امام اسحاق بن راہویہ م238ھ
(الاوسط لابن المنذر ج3ص94)
2:امام احمد بن حنبل م241ھ
(مسائل احمد بروایۃ ابی داود ص31)
3:امام ابوجعفر الطحاوی م321ھ
(احکام القرآن للطحاوی ج1ص187)
4:امام ابوبکر الجصاص الرازی م370ھ
(احکام القرآن ج3ص476)
5:امام ابوالحسین القدوری م428ھ
(التجرید للقدوری ج1ص479 باب وضع الیدین فی الصلاۃ)
6:امام ابوبکر السرخسی م490ھ
(المبسوط للسرخسی ج1ص24)
7:امام ابوبکر الکاسانی م578ھ
(بدائع الصنائع ج1ص469)
8:امام المرغینانی م593ھ
(الہدایہ ج1ص86)
9:علامہ ضیاء الدین المقدسی م643ھ
(الاحادیث المختارہ ج3ص386،387)
10:امام ابومحمد المنبجی م686ھ
(اللباب فی الجمع بین السنۃ و الکتاب: ج1 ص247)
11:علامہ ابن القیم م751ھ
(بدائع الفوائد: ج3 ص73)
جواب نمبر2:
زبیر علی زئی صاحب لکھتے ہیں: روایت کی تصحیح وتحسین اس کے ہر ہر راوی کی توثیق ہوتی ہے۔
(مقدمہ جزء رفع یدین:ص14 مترجم)
ہم ان محدثین و غیرہ کا ذکر کرتے ہیں جنہوں نے ان احادیث کو ”صحیح“ یا” حسن“ کہا ہے جن میں راوی مذکورعبدالرحمٰن بن اسحاق ہے،تو مذکورہ قاعدہ کی رو سے یہ اس راوی کی توثیق ہو گی۔
1: امام ترمذی:حسن
(جامع الترمذی رقم3563)
2: امام حاکم: صحیح الاسناد
(مستدرک حاکم رقم1973کتاب الدعاء والتکبیر )
3: امام ذہبی: صحیح الاسناد
(مستدرک حاکم رقم1973کتاب الدعاء والتکبیر )
4: امام ضیاء الدین مقدسی:عبد الرحمٰن بن اسحاق سے روایت لی ہے۔
(دیکھیے: الاحادیث المختارۃ: ج3ص386،387)
تنبیہ: علی زئی صاحب کے نزدیک ضیاء مقدسی کا کسی حدیث کی تخریج کرنا اس حدیث کی صحت کی دلیل ہے۔
(تعداد رکعت قیام رمضان ص23)
5:ناصرالدین البانی غیرمقلد: حسن
(جامع الترمذی: رقم3563، باحکام الالبانی)
6: خود زبیر علی زئی نے عبد الرحمٰن بن اسحاق کی ایک روایت کو ’’حسن“ کہا ہے۔
(جامع الترمذی: تحت رقم3563، باحکام علی زئی)
جواب نمبر3:
غیر مقلدین حضرات امام عبدالرحمٰن بن اسحاق پر جرح تو نقل کرتے ہیں لیکن جن محدثین نے ان کی تعدیل وتوثیق کی ہے ان کا ذکر نہیں کرتے، لیجیے ان کی تعدیل و توثیق پیش خدمت ہے:
1:امام احمد بن حنبل:صالح الحدیث. کہ روایت میں اچھا ہے۔
(مسائل احمد بروایۃ ابی داؤد ص31)
یاد رہے کہ ”صالح الحدیث“ الفاظِ تعدیل میں شمارکیا گیا ہے
(قواعد فی علوم الحدیث ص249)
2:امام عجلی: آپ نے اس راوی کو ثقات میں شمار کیا ہے۔
(معرفۃ الثقات ج2ص72)
3:امام ترمذی:اس کی حدیث کو ”حسن“ کہا۔
(سنن الترمذی رقم3563)
4:امام مقدسی:اس کی حدیث کو صحیح قرار دیا۔
(الاحادیث المختارۃ: ج3ص386،387)
5:امام بزار:صالح الحدیث. کہ روایت میں اچھا ہے۔
(مسند بزار تحت حدیث رقم696)
6:محدث عثمانی:اس کی حدیث ”حسن“ درجہ کی ہے۔
(اعلاء السنن ج2ص193)
یاد رہے کہ اصول حدیث کا قاعدہ ہے کہ جس راوی پر جرح بھی ہو اور محدثین نے اس کی تعدیل وتوثیق بھی کی ہو تو اس کی حدیث ”حسن“درجہ کی ہوتی ہے۔
(قواعد فی علوم الحدیث: ص75)
تو اصولی طور پر یہ راوی حسن الحدیث درجے کا ہے، ضعیف نہیں۔ لہذا یہ روایت صحیح و حجت ہے اور اعتراض باطل ہے۔
حدیث نمبر4:
عَنْ اَنَسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: مِنْ أَخْلَاقِ النُّبُوَّةِ تَعْجِيْلُ الْإِفْطَارِ وَتَأْخِيْرُ السُّحُوْرِ وَوَضْعُكَ يَمِيْنَكَ عَلٰى شِمَالِكَ فِي الصَّلَاةِ تَحتَ السُّرَّةِ .
(مختصر خلافیات البیہقی لاحمد بن الفرْح: ج2 ص34، الجوہر النقی علی البیہقی: ج2 ص32)
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : انبیاءِ کرام علیہم السلام کے اخلاق میں سے یہ چیزیں ہیں؛ روزہ جلدی افطار کرنا، سحری دیر سے کرنا اورنماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پرناف کے نیچے رکھنا۔
شبہ:
غیر مقلدین کہتے ہیں کہ اس روایت کا ایک راوی سعید بن زَرْبی مجروح ہے۔ لہذا یہ روایت ضعیف ہے۔
جواب:
اولاً……. سعید بن زَرْبی پر اگرچہ کلام کیا گیا ہے لیکن شاہد اور مؤیدات کی بناء پر یہ روایت صحیح شمار ہوگی۔
شاہد: عَنْ عَلِیّ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ: قَالَ ثَلاَثٌ مِّنْ اَخْلَاقِ الْاَنْبِیَاءِ- صَلَوَاتُ اللہِ وَسَلَامُہُ عَلَیْھِمْ- تَعْجِیْلُ الْاِفْطَارِ وَ تَاخِیْرُ السُّحُوْرِ وَوَضَعُ الْکَفِّ عَلَی الْکَفِّ تَحْتَ السُّرَّۃِ•
(مسند زید بن علی ص: ص219 باب الافطار. رقم الحدیث300)
ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تین چیزیں انبیاء علیہ السلام کے اخلاق میں سے ہیں: (۱) روز ہ جلدی افطار کرنا، (۲) سحری دیر سے کرنا اور (۳) نماز میں(دائیں) ہتھیلی کو (بائیں) ہتھیلی پر ناف کے نیچے رکھنا۔
ثانیاً……. اس روایت کی معنوی تائید حدیثِ علی رضی اللہ عنہ اور حدیثِ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے بھی ہوتی ہے۔
(دیکھیے:مصنف ابن ابی شیبۃ،باب وضع الیمین علی الشمال،رقم الحدیث 3966،رقم الحدیث 3959)
ثالثاً……. جامع الترمذی کی ایک روایت کو ناصر الدین البانی صاحب غیر مقلد نے ”صحیح“ قرار دیا ہے اور اس میں یہی سعید بن زربی موجود ہے۔
(دیکھیے جامع الترمذی باحکام الالبانی: رقم3544، باب خلق الله ماتہ رحمۃ، مکتبہ شاملہ)
خلاصہ یہ کہ یہ روایت مؤیدات اور شاہد کی بناء پر صحیح ہے۔ وللہ الحمد
احادیث موقوفہ:
1: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَحْبُوبٍ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ عَنْ زِيَادِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ أَبِى جُحَيْفَةَ أَنَّ عَلِيًّا رضى الله عنه قَالَ السُّنَّةُ وَضْعُ الْكَفِّ عَلَى الْكَفِّ فِى الصَّلاَةِ تَحْتَ السُّرَّةِ•
(سنن ابی داؤد: ج1 ص117 باب وضع الیمنی ٰ علی الیسریٰ فی الصلوۃ )
ترجمہ: حضرت ابو جحیفہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں کہ نماز میں (دائیں) ہتھیلی کو (بائیں) ہتھیلی پر ناف کے نیچے رکھنا سنت ہے۔
2: عن ابی جحیفۃ عن علی قال ان من السنۃ فی الصلوۃ المکتوبۃ وضع الایدی علی الایدی تحت السرۃ•
(الاحادیث المختارہ ج2 ص387رقم ا لحدیث 772)
ترجمہ: سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: فرض نماز میں ہاتھوں کو ہاتھوں پر ناف کے نیچے رکھنا سنت ہے۔
3: عن ابی جحیفۃ عن علی قال ان من السنۃ فی الصلوۃ وضع الاکف علی الاکف تحت السرۃ•
(الاحادیث المختارہ ج2 ص387،386رقم ا لحدیث 771)
ترجمہ: سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نماز میں ہتھیلیوں کو ہتھیلیوں پر ناف کے نیچے رکھنا سنت ہے۔
4: حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ الْكُوفِىِّ عَنْ سَيَّارٍ أَبِى الْحَكَمِ عَنْ أَبِى وَائِلٍ قَالَ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ أَخْذُ الأَكُفِّ عَلَى الأَكُفِّ فِى الصَّلاَةِ تَحْتَ السُّرَّةِ.
(سنن ابی داود ج1 ص117،التمہید لابن عبد البر: ج8ص164)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: نماز میں (دائیں) ہتھیلیوں سے (بائیں) ہتھیلیوں کو پکڑ کر ناف کے نیچے رکھنا چاہیے۔
احادیث مقطوعہ:
1: جلیل القدر تابعی امام ابرہیم نخعی رحمہ اللہ کے متعلق آتا ہے:
انہ کا ن یضع یدہ الیمنی علی یدہ الیسری تحت السرۃ.
( کتا ب الآثار بروایۃ الامام محمد: جزء1 ص323 رقم الحدیث 121، مصنف ابن ابی شیبہ ج3ص322 رقم 3960)
ترجمہ: آپ رحمۃ اللہ علیہ نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھتے تھے۔
2: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا الحَجَّاجُ بْنُ حَسَّانَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا مِجْلَزٍ ، أَوْ سَأَلْتُهُ ، قَالَ: قُلْتُ: كَيْفَ اَصْنَعُ ؟ قَالَ: يَضَعُ بَاطِنَ كَفِّ يَمِينِهِ عَلَى ظَاهِرِ كَفِّ شِمَالِهِ ، وَيَجْعَلُهَا أَسْفَلَ مِنَ السُّرَّةِ.
(مصنف ابن ابی شیبہ ج3ص323 رقم الحدیث3963)
ترجمہ: حجاج بن حسان کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابومجلز رحمہ اللہ سے سنا- یا – ان سے سوال کیا کہ میں اپنے ہاتھوں کو نماز میں کیسے باندھوں؟ تو انہوں نے فرمایا: نمازی نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کے اندرونی حصہ کو بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کے ظاہری حصہ پر رکھ کر ناف کے نیچے رکھے۔
ائمہ مجتہدین:
1: امام اعظم فی الفقہاء امام ابو حنیفہ تا بعی رحمہ اللہ
( کتا ب الآثار بروایت امام محمد ص24)
2: امام سفیان ثوری (فقہ سفیان ثوری ص561)
3: امام ابو یوسف القاضی
(احکام القرآن للطحا وی ج1ص185)
4: امام محمد بن حسن الشیبا نی
(موطا امام محمد ص160)
5: امام اسحا ق بن راہویہ
( شرح مسلم للامام النووی ج1ص173)
6: امام احمد بن حنبل
(التمہید ج8ص162تحت العنوان: عبد الکریم بن ابی المخارق)
غیر مقلدین کا ایک عمومی شبہ:
احناف ناف کے نیچے ہاتھ باندھنےکو سنت کہتے ہیں لیکن ان کی عورتیں خلاف سنت نماز پڑھتی ہیں کیونکہ وہ سینہ پر ہاتھ باندھتی ہیں۔
جواب:
عورت کے بارے میں فقہاء کا اجماع ہے کہ وہ قیام کے وقت اپنے ہاتھ سینہ پر رکھے گی اور اجماع مستقل دلیل شرعی ہے۔
1: امام ابو القاسم ابراہیم بن محمد القاری الحنفی السمر قندی (م بعد907ھ) لکھتے ہیں:
وَ الْمَرْاَۃُ تَضَعُ [یَدَیْھَا]عَلٰی صَدْرِھَا بِالْاِتِّفَاقِ.
(مستخلص الحقائق شرح کنز الدقائق: ص153)
ترجمہ: عورت اپنے ہاتھ سینہ پر رکھے گی،اس پر سب فقہاء کا اتفاق ہے۔
2: سلطان المحدثین ملا علی قاری رحمہ اللہ (م1014ھ) فرماتے ہیں:
وَ الْمَرْاَۃُ تَضَعُ [یَدَیْھَا]عَلٰی صَدْرِھَا اِتِّفَاقًا لِاَنَّ مَبْنٰی حَالِھَا عَلَی السَّتْرِ.
(فتح باب العنایۃ: ج1 ص243 سنن الصلوۃ)
ترجمہ:عورت اپنے ہاتھ سینہ پر رکھے گی،اس پر سب فقہاء کا اتفاق ہے، کیونکہ عورت کی حالت کا دارو مدار پردے پر ہے۔
3: علامہ عبد الحئی لکھنوی رحمہ اللہ (م1304ھ) لکھتے ہیں:
وَاَمَّا فِیْ حَقِّ النِّسَائِ فَاتَّفَقُوْا عَلٰی اَنَّ السُّنَّۃَ لَھُنَّ وَضْعُ الْیَدَیْنِ عَلَی الصَّدْرِ لِاَنَّھَامَا اَسْتَرُ لَھَا.
(السعایۃ ج 2ص156)
ترجمہ:رہا عورتوں کے حق میں[ہاتھ باندھنے کا معاملہ]تو تمام فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ان کے لیےسنت سینہ پر ہاتھ باندھناہے کیونکہ اس میں پردہ زیادہ ہے۔
غیر مقلدین کےدلائل کا علمی جائزہ
[۱]: عن ابی الْحَرِيشِ الْكِلاَبِىُّ حَدَّثَنَا شَيْبَانُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الْجَحْدَرِىُّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ صُهْبَانَ كَذَا قَالَ إِنَّ عَلِيًّا رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ فِى هَذِهِ الآيَةِ (فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ) قَالَ: وَضْعُ يَدِهِ الْيُمْنَى عَلَى وَسْطِ يَدَهِ الْيُسْرَى ، ثُمَّ وَضْعُهُمَا عَلَى صَدْرِهِ.
(السنن الکبریٰ للبیہقی ج2ص30)
ترجمہ: سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس آیت ”فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ“ کی تفسیر میں فرمایا: اپنے دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ کے درمیان میں رکھنا ہے، پھر ان دونوں کو اپنے سینہ پر رکھنا ہے۔
جواب:
اس روایت کی سند میں ایک راوی ابو الحریش الکلابی ہے جو کہ مجہول ہے اسی وجہ سے زبیر علی زئی نے لکھا ہے:
”ابو الحریش کا ثقہ و صدوق ہونا ثابت نہیں ہماری تحقیق میں یہ روایت بلحاظ سند ضعیف ہے۔“
(الحدیث شمارہ نمبر7ص33)
[۲]: أَخْبَرَنَا أَبُو زَكَرِيَّا بْنُ أَبِى إِسْحَاقَ أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ يَعْقُوبَ بْنِ الْبُخَارِىِّ أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِى طَالِبٍ أَخْبَرَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْمُسَيَّبِ قَالَ حَدَّثَنِى عَمْرُو بْنُ مَالِكٍ النُّكْرِىُّ عَنْ أَبِى الْجَوْزَاءِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُمَا فِى قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ (فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ) قَالَ: وَضْعُ الْيَمِينِ عَلَى الشِّمَالِ فِى الصَّلاَةِ عِنْدَ النَّحْرِ•
(السنن الکبریٰ للبیہقی: ج2ص31)
ترجمہ: سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ”فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ“ کے بارے میں فرمایا: نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر سینہ کے بالائی حصہ پر (گردن سے متصل نیچے) رکھا جائے۔
جواب:
اس روایت کی سند میں کئی راوی ایسے ہیں جو سخت ضعیف و مجروح ہیں:
1: یحیی بن ابی طالب
ان کے متعلق ائمہ کے اقوال درج ذیل ہیں:
1: موسیٰ بن ہارون کہتے ہیں: اشھد انہ یکذب• کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ یحییٰ بن ابی طالب سخت جھوٹا تھا۔
(تاریخ بغداد ج12 ص203رقم الترجمہ 7513)
2: علامہ آجری کہتے ہیں: خَطَّ ابو داودُ سلیمانُ بنُ الاشعثِ علیٰ حدیثِ یحییٰ بنِ ابی طالبٍ• کہ امام ابوداؤد سلیمان بن اشعث نے یحییٰ بن ابی طالب کی حدیث پر قلم پھیر دیا تھا۔
(تاریخ بغداد ج12ص203،لسان المیزان ج6ص263)
2: روح بن المسیب
ان کے متعلق ائمہ کی آراء یہ ہیں:
1: امام ابن حبان فرماتے ہیں:یروی عن الثقات الموضوعات ویقلب الاسانید ویرفع الموضوعات لاتحل الروایۃ عنہ.
(کتاب الضعفاء والمتروکین ابن جوزی ج1ص289 رقم الترجمہ 1251)
ترجمہ: روح بن المسیب ثقہ لوگوں کی طرف منسوب کر کے من گھڑت روایات بیان کرتا تھا، سندوں کو الٹ پلٹ کرتا تھا اورمن گھڑت روایات کو حدیث رسول صلی اللہ علیہ و سلم کہہ کر بیان کرتا تھا، اس سے روایت لینا حلال نہیں ہے۔
2: علامہ ابن عدی فرماتے ہیں: احادیث غیر محفوظ• کہ اس کی احادیث غیر محفوظ ہیں۔
(الکامل فی الضعفاءج3ص58رقم الحدیث 664)
3: عمرو بن مالک النکری
اس کے متعلق ائمہ کی یہ آراء ہیں:
1،2: علامہ ابن عدی فرماتے ہیں:
منکر الحدیث عن الثقات ویسرق الحدیث ضعفہ ابو یعلی الموصلی.
(کتاب الضعفاء والمتروکین ابن جوزی ج2ص231رقم الترجمہ 2575)
ترجمہ: ثقہ رایوں کی طرف منسوب کر کے منکر احادیث بیان کرتا تھا اور احادیث کو چوری کرتا تھا۔ ابو یعلیٰ الموصلی نے اس کو ضعیف قرار دیا۔
3: حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:عمرو بن مالک یخطی ویغرب•
(تہذیب التہذیب ج5ص86 ،رقم الترجمہ 6014)
کہ عمرو بن مالک خطا کار تھا اور غریب احادیث بیان کرتا تھا۔
4: علامہ ذہبی نے اس کوضعفاء میں شمار کیا ہے۔
(المغنی فی الضعفاء ج2ص151)
5: علامہ ابن عدی فرماتے ہیں:
وَلِعَمْرٍو غَيْرُ مَا ذَكَرْتُ أَحَادِيثُ مَنَاكِيرٌ بَعْضُهَا سَرَقَهَا مِنْ قَوْمٍ ثقات.
(الکامل لابن عدی ج6ص258۔259)
کہ عمرو کی جو روایات میں نے ذکر کی ہیں ان کے علاوہ بھی اس کی کئی منکر روایات ہیں جو اس نے ثقہ راویوں سے چوری کی ہیں۔
لہذا یہ روایت سخت ضعیف ہے جو کہ صحیح روایات کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔
[۳]: أخبرنا أبو طاهر نا أبو بكر نا أبو موسى نا مؤمل نا سفيان عن عاصم بن كليب عن أبيه عن وائل بن حجر قال: صليت مع رسول الله صلى الله عليه و سلم ووضع يده اليمنى على يده اليسرى على صدره.
(صحیح ابن خزیمۃ: ج1ص272،رقم الحدیث 479 باب وضع الیمین علی الشمال فی الصلاۃ)
ترجمہ: حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ نماز پڑھی، آپ علیہ السلام نے اپنے دئیں ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ پر اپنے سینہ پر رکھا۔
جواب نمبر1:
اس کی سند میں ایک راوی ”مؤمل بن اسماعیل“ ہے جن پر بہت سارے ائمہ جرح و تعدیل نے کلام کیا ہے۔ ائمہ کی آراء ملاحظہ ہوں:
1: امام بخاری: منکر الحدیث•
(المغنی فی الضعفاء للذھبی: ج2ص446 ،میزان الاعتدال للذھبی: ج4ص417،تہذیب التہذیب لابن حجر: ج6ص489)
2: امام ابو زرعہ الرازی: فی حدیثہ خطاء کثیر. کہ اس کی حدیث میں بہت زیادہ غلطیاں تھیں۔
(میزان الاعتدال: ج4 ص417 رقم 8445)
3: امام ابن حبان: ربمااخطاَ. کہ یہ کبھی خطا کر جاتا تھا۔
(تہذیب التہذیب: ج6ص489 رقم 2877)
4: امام ابن سعد: کثیر الغلط. کثرت سے غلطیاں کرتا تھا۔
(الطبقات الکبریٰ: ج5 ص501)
5: امام عبد الباقی بن قانع بغدادی: یخطی. یہ خطا کار تھا۔
(تہذیب التہذیب: ج6 ص 490 رقم 8277)
6: امام ذھبی: اس کو ضعفاء میں شمار کرتے ہیں۔
(المغنی فی الضعفاء ج2ص446)
7: امام ابو حاتم الرازی: صدوق کثیر الخطاء• سچا ہے لیکن غلطیاں بہت کرتا تھا۔
(الجرح و التعدیل: ج8 ص427 رقم 15016)
8: امام زکریا بن یحییٰ الساجی: کثیر الخطاء لہ اوہام یطول ذکرہا. غلطیاں بہت کرتا تھا ، اس کےاو ہام کا ذکر کیا جائے تو بات بہت طویل ہو جائے گی۔
(تہذیب التہذیب: ج6 ص 490 رقم 8277)
9: امام محمد بن نصر المروزی: ایک حدیث کی تحقیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں جس میں مؤمل بن اسماعیل ہے، فرماتے ہیں:
فإن هذا حديث لم يروه عن حماد بن زيد غير المؤمل وإذا انفرد بحديث وجب أن توقف ويتثبت فيه لأنه كان سیئ الحفظ كثير الغلط•
کہ اس حدیث کو حماد بن زید سے مؤمل بن اسماعیل کے علاوہ کوئی نقل روایت نہیں کرتا او مؤمل جب کسی روایت میں منفرد ہو تو اس روایت میں توقف اور غور و فکر کرنا ضروری ہے کیونکہ مؤمل کا حافظہ خراب تھا اور یہ غلطیاں بہت کرتا تھا۔
(تعظیم قدر الصلاۃ للمروزی: ص574)
10: یعقوب بن سفیان الفارسی: أن حديثه لا يشبه حديث أصحابه، حتى ربما قال: كان لا يسعه أن يحدث وقد يجب على أهل العلم أن يقفوا عن حديثه، ويتخففوا من الرواية عنه؛ فإنه منكر يروي المناكير عن ثقات شيوخنا، وهذا أشد•
(کتاب المعرفۃ و التاریخ: ج3 ص492)
کہ اس کی حدیث اس کے ہم جماعت محدثین سے نہیں ملتی (یعنی ان کی روایات سے مختلف ہوتی ہے حالانکہ یہ ایک ہی استاذ کے شاگرد ہوتے ہیں) یعقوب کبھی کبھی یوں بھی فرماتے تھے: مؤمل کو حق نہیں پہنچتا کہ حدیث بیان کرے۔ اہلِ علم پر لازم ہے کہ اس سےحدیث لینے سے محتاط ہو جائیں اور (اگر لیں تو) کم سے کم روایات لیں کیونکہ یہ منکر روایات بیان کرتا ہے۔ اس پر مزید یہ کہ یہ ہمارے ثقہ اساتذہ کی طرف منسوب کر کے منکر روایات بیان کرتا ہے اور یہ اس سے بھی زیادہ غضب کی بات ہے۔
11: امام دار قطنی: کثیر الخطاء• غلطیاں بہت کرتا تھا۔
(سوالات الحاکم للدارقطنی: 492)
12: امام احمد بن حنبل: مؤمل کان یخطئی . مؤمل خطا کار تھا۔
(سوالات المروزی: 53)
13: حافظ ابن حجر العسقلانی: صدوق سیئ الحفظ• سچاتو ہے لیکن خراب حافظہ کا مالک تھا۔
(تقریب التہذیب:7029 رقم 584)
دوسرے مقام پر لکھتے ہیں: مؤمل بن إسماعيل في حديثه عن الثوري ضعف. مؤمل بن اسماعیل کی جو روایت سفیان ثوری سے ہو وہ ضعیف ہوتی ہے۔ (فتح الباری: ج9 ص297) كثير الخطأ• یہ کثرت سےغلطیاں کرتا تھا۔ (ج13 ص42)
اور یہ روایت بھی مؤمل عن الثوری کے طریق سے مروی ہے۔
14: علامہ ابن الترکمانی: دفن کتبہ فکان یحدث من حفظہ فکثر خطاءہ• کہ اس کی کتب دفن ہو گئیں تھیں یعنی گم ہو گئیں تھیں اور یہ اپنے حافظے سے احادیث بیان کرتا تھا اس لیے اس کی اغلاط زیادہ ہو گئیں۔
(الجوہر النقی: ج2 ص30)
15: علامہ نور الدین الہیثمی: آپ نے مجمع الزوائد میں مختلف مقام پر مؤمل پر کلام کیا ہے، چند یہ ہیں:
ضعفه البخاري• امام بخاری نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
(تحت ح6532 باب کراہیۃ شراء الصدقۃ لمن تصدق بھا)
ضعفه البخاري وغيره• امام بخاری اور دیگر محدثین نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
(تحت ح7385 باب نکاح المتعۃ)
ضعفه الجمهور• جمہور محدثین نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
(تحت ح8068 باب فی حمر الاھلیۃ)
ضعفه جماعة • محدثین کی ایک جماعت نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
(تحت ح8563باب ما جاء فی الصباغ)
ضعفه البخاري وغيره• امام بخاری اور دیگر محدثین نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
(تحت ح8917 باب الخلفاء الاربعۃ)
علامہ الہیثمی کے اس مجموعی کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک مؤمل بن اسماعیل ”ضعیف عند الجمہور“ ہے۔
حتی کہ خود غیر مقلدین نے بھی اس پر کلام کیا یا دیگر حضرات کا کلام نقل کیا۔
 ناصرالدین البانی صاحب نے اس پر جرح کی اور کہا:
ضعيف لسوء حفظه وكثرة خطإه•
(سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ: ج2 ص293)
کہ مؤمل اپنے خراب حافظے اور کثرت سے غلطیاں کرنے کی وجہ سے ضعیف ہے۔
اورابنِ خزیمہ کی اس سند کے بارے میں کہا:
اسنادہ ضعیف لان مؤملاوھو ابن اسماعیل سیئی الحفظ.
(حاشیہ ابن خزیمہ ج1ص272 باب فی الخشوع فی الصلاۃ)
کہ اس روایت کی سند ضعیف ہے کیونکہ اس کے راوی مؤمل بن اسماعیل کا حافظہ خراب تھا۔
 محمد عبد الرحمٰن مبارکپوری غیر مقلد نے امام بخاری اور حافظ ابن حجر کا کلام نقل کر کے اس کا مؤمل کا ضعیف ہونا ثابت کیا۔
(دیکھیےتحفۃ الاحوذی: ج6 ص67)
 عبد الرؤف بن عبد الحنان سندھو غیر مقلد نے لکھا:
”یہ سند ضعیف ہے کیونکہ مؤمل بن اسماعیل سئی الحفظ ہے جیسا کہ ابن حجر نے تقریب (۲/ ۹۰) میں کہا ہے۔ ابو زرعہ نے کہا ہے کہ یہ بہت غلطیاں کرتا ہے۔ امام بخاری نے اسے منکر الحدیث کہا ہے۔ ذہبی نے کہا ہے کہ یہ حافظ عالم ہے مگر غلطیاں کرتا ہے۔ میزان (۴/ ۲۲۸)“
(القول المقبول فی شرح و تعلیق صلاۃ الرسول از عبد الرؤف بن عبد الحنان غیر مقلد: ص340)
جواب نمبر 2:
اس روایت کے راوی امام سفیان ثوری ہیں جو خود ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کے قائل ہیں۔
(فقہ سفیان الثوری ص561)
اور جب راوی کا اپنا عمل اپنی روایت کے خلاف ہو تو وہ روایت قابل عمل نہیں ہوتی کیونکہ اصول حدیث کا قاعدہ ہے:
عمل الراوی بخلاف روایتہ بعد الروایۃ مما ہو خلاف بیقین یسقط العمل بہ عندنا•
(المنار مع شرحہ ص190)
کہ راوی کا عمل روایت کو بیان کرنے کے بعد اس کے خلاف ہو تو ہمارے ہاں اس روایت پر عمل نہیں کیا جاتا۔
لہذا یہ روایت ساقط العمل ہے۔
[۴]: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ سُفْيَانَ حَدَّثَنِي سِمَاكٌ عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ هُلْبٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْصَرِفُ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ يَسَارِهِ وَرَأَيْتُهُ قَالَ يَضَعُ هَذِهِ عَلَى صَدْرِه•
( مسند احمد ج16ص152 رقم 21864)
ترجمہ: حضرت قبیصہ بن ھلب کے والد حضرت ھلب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا، آپ اپنے دائیں اور بائیں طرف سلام پھیرتے تھے، میں نے آپ علیہ السلام کو دیکھا کہ آپ اپنے اس ہاتھ کو اپنے سینہ پر رکھتے تھے۔
جواب نمبر1:
اولا……… اس میں ایک راوی سماک بن حرب ہے جس پر بہت سارے ائمہ نے کلام کیا ہے۔
1: امام شعبہ بن الحجاج: یضعفہ. اسے ضعیف قرار دیتے تھے۔
(تاریخ بغداد: ج7 ص272 رقم الترجمۃ 4791)
2: امام احمد بن حنبل: سماک مضطرب الحدیث• سماک کی حدیث میں اضطراب ہے۔
(الجرح و التعدیل: ج4 ص279)
3: امام صالح جَزرہ: یضعف• اسے ضعیف قرار دیتے تھے۔
(میزان الاعتدال ج2ص216)
4: محمد بن عبد اللہ بن عمار الموصلی:
یقولون انہ کا ن یغلط ویختلفون فی حدیثہ.
(تاریخ بغداد: ج7 ص272 رقم 4791)
محدثین کا فیصلہ ہے کہ یہ غلطیاں کرتا تھا ، اس لیے یہ اس کی حدیث میں اختلاف کرتے ہیں۔
5: امام عبد اللہ بن المبا رک: ضعیف فی الحدیث• حدیث میں ضعیف تھا۔
(تہذیب الکمال: ج8 ص131، تہذیب ج3ص67)
6: امام عبد الرحمٰن بن یوسف بن خراش :فی حدیثہ لین. اس کی حدیث میں ضعف ہے۔
(تاریخ بغداد: ج7 ص272 رقم 4791)
7: امام ا بن حبان: یخطئ کثیراً. بہت زیادہ غلطیاں کرتا تھا۔
(تہذیب ج3ص67۔68، کتاب الثقات: ج4 ص339)
8: امام سفیان الثوری: یضعفہ بعض الضعف• اس کو کچھ ضعیف قرار دیتے تھے۔
(تاریخ الثقات: رقم 621، تاریخ بغداد: ج9 ص216)
9: امام بزار: وکان قد تغیر قبل موتہ• وفات سے پہلے اس کا حافظہ متغیر ہوگیا تھا۔
(تہذیب ج3ص68)
10: امام عقیلی: اس کو ضعفاء میں شمار کرتے ہیں۔
(الضعفاء الکبیر للبیہقی ج2ص178)
11: امام ذہبی: اس کو ضعفاء میں شمار کرتے ہیں۔
(المغنی للذہبی ج1ص448)
12: امام ابن الجوزی: اس کو ضعفاء میں شمار کرتے ہیں۔
(الضعفاء والمتروکین لابن جوزی ج2ص26)
13: امام نسائی: وَسِمَاكٌ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ وَكَانَ يَقْبَلُ التَّلْقِينَ
• (سنن النسائی: تحت ح5693 باب ذكر الأخبار التي اعتل بها من أباح شراب السكر)
کہ سماک قوی نہیں، یہ تلقین کو قبول کرتا تھا۔
ایک مقام پر فرمایا:
اذا انفرد باصل لم یکن بحجۃ لانہ کا ن یلقن فیتلقن•
(میزان الاعتدال ج2ص216، تحفۃ الاشراف للمزی: ج5 ص137، 138)
کہ جب یہ کسی روایت میں منفرد ہو تو حجت نہیں کیونکہ اس کو تلقین کی جاتی تو یہ اسے قبول کر لیتا تھا۔
14: امام ابو القاسم الکعبی م 319ھ نے سماک کو”با ب فیہ ذکر من رموہ بانہ من اہل البدع واصحا ب الاھواء“ [اس باب میں ان لوگوں کا ذکر ہو گا جن کو محدثین نے اہلِ بدعت اور خواہش پرست قرار دیا] کے تحت ذکرکیا ہے۔
(دیکھئے قبول الاخبار ومعرفۃ الرجا ل ج2ص381۔390 )
ان تصریحا ت سے ثا بت ہو ا کہ سماک بن حرب جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔
ثانیاً……… علی زئی غیر مقلد نے ایک مقام پر لکھا:
”جو راوی کثیر الخطاء، کثیر الاوھام، کثیر الغلط اور سئی الحفظ ہو اس کی منفرد حدیث ضعیف ہوتی ہے۔“
(نور العینین: ص63)
اور سماک بن حرب بھی ضعیف، مضطرب الحدیث، خطا کار، لیس بالقوی (کما تقدم) ہونے کے ساتھ ساتھ بقول امام نسائی جب کسی روایت میں منفرد ہو تو حجت نہیں۔
(میزان الاعتدال ج2ص216، تحفۃ الاشراف للمزی: ج5 ص137، 138)
اور اس روایت میں یہ منفرد ہے۔ لہذا یہ روایت ضعیف ہے اور تحت السرہ والی صحیح روایات کا مقا بلہ نہیں کر سکتی۔
جواب نمبر2:
حدیث ھلب طائی درج ذیل کتب میں کئی طرق سے موجود ہے:
1: مصنف ابن ابی شیبہ (ج3 ص317 باب وضع الیمین علی الشمال. رقم الحدیث3955)
2: مسند احمد بن حنبل (ج16 رقم الحدیث21865، 21866، 21868، 21871، 21872، 21873)
3: مسند احمد بن منیع (بحوالہ اتحاف الخیرۃ المہرۃ: ج2 ص402 رقم الحدیث1803)
4: سنن الترمذی (ج1 ص59 باب ما جاء فی وضع الیمین علی الشمال فی الصلاۃ)
5: مختصر الاحکام للطوسی (ص107 باب ما جاء فی وضع الیمین علی الشمال فی الصلاۃ)
6: سنن ابن ماجہ (ج1 ص58 باب وضع الیمین علی الشمال فی الصلاۃ)
7: سنن الدار قطنی (ج1 ص288 باب فی اخذ الشمال بالیمین فی الصلاۃ)
8: السنن الکبریٰ للبیہقی (ج2 ص29 باب وضع اليد اليمنى على اليسرى فى الصلاة)
9: التمہید لابن عبد البر (ج8 ص160تحت العنوان: عبد الکریم بن ابی المخارق)
10: الاستذکار لابن عبد البر (ج2 ص290)
11: شرح السنۃ للبغوی (ج2 ص193 رقم الحدیث571)
12: التحقیق لابن الجوزی (ج1 ص338 رقم الحدیث435)
لیکن ان میں کسی بھی طریق میں ”علی صدرہ“ کے الفاظ نہیں ہیں۔ ثابت ہوا کہ مسند احمد کی مذکورہ روایت میں یہ الفاظ سماک بن حرب (ضعیف) کی وجہ سے زائد ہوئے ہیں جو کہ صحیح روایات کے مقابلے میں حجت نہیں۔
[۵]:عَنْ طَاوُسٍ قَالَ كَانَ النَّبِیُّ صلى الله عليه وسلم يَضَعُ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى يَدِهِ الْيُسْرَى ثُمَّ يَشُدُّ بَيْنَهُمَا عَلَى صَدْرِهِ وَهُوَ فِى الصَّلاَةِ.
(صلاۃ الرسول از صادق سیالکوٹی: ص188، رسول اکرم کی نماز از اسماعیل سلفی:ص67بحوالہ مراسیل ابی داؤد)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز کی حالت میں اپنے دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ پر رکھتے تھے، پھر ان کو اپنے سینہ پر باندھ دیتے تھے۔
جواب نمبر1:
اس کی سند میں ایک راوی ”سلیمان بن موسیٰ“ ہے۔ اس پر بہت سے ائمہ نے زبردست جرح کی ہے۔
1:امام بخاری:عندہ مناکیر• اس کی روایات منکر ہوتی ہیں۔
(الضعفاء الصغیر للبخاری ص55،56)
2:امام نسائی:لیس بالقوی فی الحدیث. حدیث میں قوی نہیں تھا۔
(الضعفاء والمتروکین للنسائی ص186)
3:امام عقیلی: اس کو ضعفاء میں شمار کرتے ہیں۔
(الضعفاء الکبیر للعقیلی ج2ص140)
4: امام ابو حاتم الرازی: فی حدیثہ بعض الاضطراب• اس کی حدیث میں کچھ اضطراب ہے۔
(الجرح و التعدیل: ج4 ص135 رقم 5734)
5:امام ذہبی: اس کو ضعفاء میں شمار کرتے ہیں۔
(المغنی فی الضعفاء ج1 ص445)
6: حافظ ابن حجر: في حديثه بعض لين وخولط قبل موته بقليل. اس کی حدیث میں کچھ ضعف ہے اور وفات سے پہلے کچھ اختلاط کا شکار ہو گیا تھا۔
(تقریب: ص289 رقم 2616)
7: امام علی بن المدینی: سليمان بن موسى مطعون عليه. سلیمان بن موسىٰ پر طعن یعنی جرح کی گئی ہے۔
(الضعفاء الکبیر للعقیلی ج2ص140)
لہذا یہ روایت ضعیف ہے۔
جواب نمبر2: (الزامی) یہ روایت مرسل ہے اور مرسل غیرمقلدین کے ہاں ضعیف ہوتی ہے۔ لہذا اس کو پیش کرنا خود غیرمقلدین کے اصول پر بھی درست نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زبیر علی زئی غیر مقلد نے اس روایت کے متعلق لکھا ہے: ”ہمارے نزدیک یہ روایت مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔“
(نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام: ص24 از علی زئی

ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کی مکمل تحقیق

*نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے پر مکمل کامل تحقیقی جواب* 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا
از افادات: متکلمِ اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ
مذہب اہل السنت والجماعت احناف:
نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا سنت ہے۔
(الھدایہ ج1 ص 100 ،101)
مذہب غیر مقلدین:
نماز میں سینہ پر ہاتھ باندھنا سنت ہے۔
(نماز نبوی للالبانی ص77، بارہ مسائل از عبد الرحمٰن خلیق ص52)
اور ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے سے نماز نہیں ہو تی۔
(قول حق از مولوی محمد حنیف فرید کو ٹی ص21 بحوالہ مجموعہ رسائل ج1 ص325 )
فائدہ:
اہل السنت و الجماعت احناف کے ہاں ہاتھ باندھنے کا طریقہ یہ ہے کہ دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کی پشت پر رکھ کر، انگوٹھے اور چھنگلیا سے بائیں ہاتھ کے گٹے کو پکڑتے ہوئے تین انگلیاں کلائی پر بچھا کر ناف کے نیچے رکھتے ہیں۔امام محمد بن حسن الشیبانی فرماتے ہیں:
و یضع بطن کفہ الایمن علی رسغہ الایسر تحت السرۃ فیکون الرسغ فی وسط الکف.
[کتاب الآثار بروایۃ محمد: ج1 ص321]
ترجمہ: نمازی اپنی دائیں ہتھیلی کا اندرونی حصہ اپنی بائیں کلائی کے اوپر رکھ کر ناف کے نیچے رکھے، اس طرح گٹہ ہتھیلی کے درمیان میں ہو جائے گا۔
علامہ عینی فرماتے ہیں:
واستحسن كثير من مشايخنا…… بأن يضع باطن كفه اليمنى على كفه اليسرى ويحلق بالخنصر والإبهام على الرسغ.
[عمد ۃ القاری: ج4 ص389 باب وضع الیمنیٰ علی الیسریٰ فی الصلاۃ]
ترجمہ: ہمارے اکثر مشائخ نے اس بات کو پسند فرمایاہے کہ نمازی اپنی دائیں ہتھیلی کا اندرونی حصہ اپنی بائیں ہتھیلی (کی پشت) پر رکھے اور چھنگلیا اور انگوٹھے کے ساتھ گٹے پر حلقہ بنا لے۔
یہ موقف ان دلائل سے ثابت ہے:
1:عَنْ سَھْلِ بْنِ سَعْدٍ رضی اللہ عنہ قَالَ کَانَ النَّاسُ یُؤْمَرُوْنَ اَنْ یَّضَعَ الرَّجُلُ الْیَدَ الْیُمْنٰی عَلٰی ذِرَاعِہِ الْیُسْریٰ فِی الصَّلٰوۃِ •
(صحیح البخاری ج 1ص 102باب وضع الیمنی علی الیسریٰ)
ترجمہ: حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگوں کو اس بات کا حکم دیا جاتا تھا کہ آدمی نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں بازو پر رکھے۔
2: عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: لَاَ نْظُرَنَّ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم کَیْفَ یُصَلِّیْ؟ قَالَ فَنَظَرْتُ اِلَیْہِ قَامَ فَکَبَّرَ وَرَفَعَ یَدَیْہِ حَتّٰی حَاذَتَا اُذُنَیْہِ ثُمَّ وَضَعَ یَدَہٗ الْیُمْنٰی عَلٰی ظَھْرِکَفِّہِ الْیُسْریٰ وَالرُّسْغِ وَالسَّاعِدِ •
(صحیح ابن حبان:ص577رقم الحدیث1860،سنن النسائی:ج1ص141،سنن ابی داؤد ج 1ص105 باب تفریع استفتاح الصلوٰۃ)
ترجمہ: حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں (نے ارادہ کیا کہ) دیکھوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز کیسے پڑھتے ہیں؟ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کھڑے ہوئے، تکبیر کہی اور دونوں ہاتھ اپنے دونوں کانوں کے برابر اٹھائے، پھر اپنے دائیں ہاتھ کو اپنی بائیں ہتھیلی (کی پشت)، گٹے اور بازو پر رکھا۔
3:عَنِ ابْنِ عَبَّاس رضی اللہ عنہما اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ اِنَّا مَعْشَرُ الْاَنْبِیَائِ اُمِرْنَااَنْ نُؤَخِّرَسُحُوْرَنَا وَنُعَجِّلَ فِطْرَنَاوَاَنْ نُمْسِکَ بِاَیْمَانِنَاعَلٰی شَمَائِلِنَا فِیْ صَلٰوتِنَا•
( صحیح ابن حبان ص 555.554ذکر الاخبار عما یستحب للمرء، رقم الحدیث 1770)
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ہم انبیاء علیہم السلام کی جماعت کو اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ ہم سحری تاخیر سے کریں، افطار جلدی کریں اور نماز میں اپنے دائیں ہاتھوں سے اپنے بائیں ہاتھوں کو پکڑے رکھیں۔
4: عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ رضی اللہ عنہ قَالَ رَاَیْتُ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم وَضَعَ یَمِیْنَہٗ عَلَی شِمَالِہٖ فِی الصَّلٰوۃِ تَحْتَ السُّرَّۃِ•
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج3 ص321،322، وضع الیمین علی الشمال،رقم الحدیث 3959)
ترجمہ: حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھاکہ آپ نے نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھا۔
دلائل اہل السنت و الجماعت
قرآن مع التفسیر:
رَوَی الْاِمَامُ اَبُوْبَکَرِالْاَثْرَمُ قَالَ حَدَّثَنَااَبُوالْوَلِیْدِ الطِّیَالِسِیُّ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ عَنْ عَاصِمِ الْجَحْدَرِیِّ عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ صَبْھَانَ سَمِعَ عَلِیًّا یَقُوْلُ فِیْ قَوْلِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ{فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ} قَالَ وَضْعُ الْیُمْنٰی عَلَی الْیُسْرَیٰ تَحْتَ السُّرَّۃِ.
(سنن الاثرم بحوالہ التمہید لابن عبد البر: ج8 ص164 تحت العنوان: عبد الکریم بن ابی المخارق)
ترجمہ: حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان {فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ} کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: نماز میں دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ پرناف کے نیچے رکھاجائے۔
توثیقِ روات:
1:امام ابو بکر الاثرم احمد بن محمد بن ہانی (م273ھ): ثقۃ ، حافظ ، لہ تصانیف.
(تقریب التہذیب ص122رقم الترجمہ 103)
2:امام ابو الولید ہشام بن عبد الملک الطیالسی (م227 ھ): آپ صحاح سۃ کے راوی ہیں۔” ثقۃ ، ثبت“
(التقریب: ص603،رقم الترجمہ 7301)
3:حماد بن سلمہ (م167ھ): صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں۔”شیخ الاسلام الحافظ صاحب السنۃ“
(تذکرۃ الحفاظ ج1ص151)
4:امام عاصم الجحدری (م129ھ): ثقۃ.
(الجرح والتعدیل للرازی ج6ص؛456،رقم الترجمہ 11176)
5:امام عقبہ بن صبھان (م75ھ او82ھ): آپ صحیح بخاری اورصحیح مسلم کے راوی ہیں۔ ” ثقۃ“.
(تقریب التہذیب ص425 رقم 4640)
6: سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ: صحابی رسول وداماد رسول ہیں۔
7:امام ابن عبد البرالمالکی (م463ھ) آپ مشہور مالکی امام ہیں۔” شیخ الاسلام حافظ المغرب“
(تذکرۃ الحفاظ ج3ص217)
تو یہ روایت ”ثقۃ عن ثقۃ“ سے مروی ہے۔ لہذا اصول حدیث کی رو سے یہ حدیث بالکل صحیح ہے۔
اعتراض:
امام ابن عبد البر کی ولادت تقریباً سن 370 ہجری میں ہے اور امام ابو بکر الاثرم کی وفات سن 273 ہجری میں ہے، دونوں کے درمیان تقریباً 100 سال کا فاصلہ ہے تو یہ روایت منقطع ہوئی۔
جواب:
اولاً…… امام ابن عبد البر نے یہ روایت امام ابو بکر الاثرم کی کتاب سے نقل کی ہے اس کے لئے اتصال ضروری نہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے آج کوئی شخص صحیح البخاری سے دیکھ کر روایت ذکر کرے۔
ثانیاً…… امام ابن عبد البر نے اپنی کتاب ”التمہید“ میں کئی مقامات پر امام ابو بکر الاثرم تک سند کو ذکر فرمایا ہے۔ مثلا ایک مقام پر آپ فرماتے ہیں:
اخبر نی عبد اللہ ابن محمد یحیی قال حدثنا عبد الحمید ابن احمد البغدادی قال حدثنا الخضر بن داؤدقال حدثنا ابو بکر الاثرم الخ
(التمہید لابن عبد البر: ج1ص78 تحت باب الف فی اسماء شیوخ مالک الذین روی عنہم حدیث النبی علیہ السلام – ابراہیم بن عقبۃ)
تو امام ابن عبد البر سے لے کر امام ابو بکر الاثرم تک سند کا اتصال بھی موجود ہے۔ لہذا یہ روایت بالکل صحیح ہے۔
احادیث مرفوعہ:
حدیث نمبر1:
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم وَضَعَ يَمِينَهُ عَلَى شِمَالِهِ فِي الصَّلاَةِ تَحْتَ السُّرَّةِ•
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج3 ص321، 322، وضع الیمین علی الشمال،رقم الحدیث 3959)
ترجمہ: حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھاکہ آپ نے نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھا۔
اعتراض:
اس روایت میں ”تحت السرۃ“ کا لفظ مدرج ہے، احناف نے خود یہ لفظ بڑھایا ہے ابن ابی شیبہ کے کئی نسخوں میں یہ لفظ نہیں۔
جواب:
تحت السرہ کا لفظ کئی نسخوں میں موجود ہے۔
1:نسخہ امام قاسم بن قطلوبغا الحنفی
(درہم الصرہ ص82)
2:نسخہ شیخ محمد اکرم نصر پوری
(درہم الصرہ ص82)
3:نسخہ شیخ عبدالقادر مفتی مکہ مکرمہ
(درہم الصرہ ص82)
4:نسخہ شیخ عابد سندھی: اس کا عکس مصنف ابن ابی شیبہ بتحقیق عوامہ ج3میں موجود ہے۔
5:نسخہ قبہ محمودیہ
(در الغرۃ ص24 بحوالہ تجلیات ج4ص4)
6:امام محمد ہاشم سندھی فرماتے ہیں:
منہا لفظۃ ”تحت السرۃ“ وقد وجدت ہی فی ثلاث نسخ من مصنف ابی بکر بن ابی شیبۃ
(ترصیع الدرۃ ص4ومصنف ابن ابی شیبہ بتحقیق عوامہ)
ترجمہ: ان میں ایک لفظ ”تحت السرۃ“ ہے، میں نے خود یہ لفظ مصنف ابن ابی شیبہ کے تین نسخوں میں پایا ہے۔
7: نسخہ مصنف ابن ابی شیبہ بتحقیق شیخ محمد عوامہ
(دیکھیے مصنف ابن ابی شیبۃ:ج3ص320 تا 322. طبع مدینہ منورہ)
8: نسخہ شیخ محمد مرتضیٰ الزبیدی: اس کا عکس ملاحظہ ہومصنف ابن ابی شیبہ بتحقیق عوامہ ج3
9: نسخہ مطبوعہ مکتبہ امدادیہ فیصل آباد:
(ج1ص427رقم6باب وضع الیمین علی الشمال)
لہذا ”تحت السرۃ“ کا لفظ مدرج نہیں بلکہ ابن ابی شیبہ کے اکثر نسخوں میں موجود ہے۔
حدیث نمبر 2:
عَنْ عَلِیّ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ: قَالَ ثَلاَثٌ مِّنْ اَخْلَاقِ الْاَنْبِیَاءِ- صَلَوَاتُ اللہِ وَسَلَامُہُ عَلَیْھِمْ- تَعْجِیْلُ الْاِفْطَارِ وَ تَاخِیْرُ السُّحُوْرِ وَوَضَعُ الْکَفِّ عَلَی الْکَفِّ تَحْتَ السُّرَّۃِ.
(مسند زید بن علی ص: ص219 باب الافطار. رقم الحدیث300)
ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تین چیزیں انبیاء علیہ السلام کے اخلاق میں سے ہیں: (۱) روز ہ جلدی افطار کرنا، (۲) سحری دیر سے کرنا اور (۳) نماز میں(دائیں) ہتھیلی کو (بائیں) ہتھیلی پر رکھ کر ناف کے نیچے رکھنا۔
اعتراض:
1: ”مسند زید“ اہل سنت کی کتاب نہیں، بلکہ شیعوں کی کتاب ہے.
2: ”مسند زید“کا بنیادی راوی ابو خالد عمر و بن خالد الواسطی مجروح راوی ہے۔
جواب:
ہر شق کا جواب پیش خدمت ہے:
جواب شق اول:
اولاً...... ”مسند زید“ (المعروف المجموع الفقہی) شیعوں کی نہیں بلکہ سنیوں کی کتاب ہے۔ اس پر چند قرائن پیش ہیں:
[۱]:اس میں وضو کرتے ہوئے پاؤں کو دھونے کا ذکر ہے۔ (ص53) جبکہ شیعہ پاؤں کو دھونے کے بجائے پاؤں پر مسح کرتے ہیں۔
[۲]:اس میں شروع نماز کے علاوہ پوری نماز میں رفع یدین نہ کرنے کا ذکر ہے۔ (ص88) جبکہ شیعہ نماز کے اندر اور سلام کے وقت رفع یدین کرتے ہیں۔
[۳]: اس میں تراویح کا ذکر ہے۔ (ص158) جبکہ شیعہ اس کے سرے سے منکر ہیں۔
[۴]:اس میں سحری تاخیر سے کھانے اور افطاری جلدی کرنے کا ذکر ہے۔ (ص211) جبکہ شیعہ کا عمل اس کے برعکس ہے۔
[۵]:اس میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے والی روایت موجود ہے۔ (ص211) جبکہ شیعہ ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں۔
اور بھی بہت سے حوالہ جات جمع کیے جا سکتے ہیں۔ ان حوالہ جات سے ثابت ہوا کہ یہ اہل السنت کی کتاب ہے۔
ثانیاً...... اس کتاب کی اکثر احادیث کی تائید دیگر کتب اہل السنت سے بھی ہوتی ہے۔ مثلاً
(۱) حدیث نمبر 1 کی تائید.... از مؤطا امام مالک حدیث نمبر32، صحیح بخاری حدیث نمبر158، 162، 183، صحیح مسلم حدیث نمبر236
(۲) حدیث نمبر 67کی تائید...از صحیح مسلم حدیث نمبر1389، سنن ابن ماجۃ حدیث نمبر725، مسند احمد حدیث نمبر13815
(۳) حدیث نمبر68 کی تائید ... ازمؤطا امام مالک حدیث نمبر1، صحیح البخاری حدیث نمبر499، سنن ابی داؤد حدیث نمبر394
(۴) حدیث نمبر70 کی تائید... از صحیح مسلم حدیث نمبر648، سنن النسائی حدیث نمبر859، سنن ابن ماجۃ حدیث نمبر1257
(۵) حدیث نمبر78 کی تائید... از سنن الترمذی حدیث نمبر3، سنن ابی داؤد حدیث نمبر61، سنن ابن ماجۃ حدیث نمبر275
(۶) حدیث نمبر85 کی تائید... از جامع الترمذی حدیث نمبر312، سنن ابی داؤد حدیث نمبر824، سنن النسائی حدیث نمبر919
(۷) حدیث نمبر102 کی تائید... از مؤطا امام مالک حدیث نمبر149، صحیح البخاری حدیث نمبر590، صحیح مسلم حدیث نمبر
(۸) حدیث نمبر104 کی تائید... از صحیح مسلم حدیث نمبر673، سنن الترمذی حدیث نمبر235، سنن النسائی حدیث نمبر783
(۹) حدیث نمبر106 کی تائید... از مسند احمد حدیث نمبر18641، مصنف ابن ابی شیبۃ حدیث نمبر3526
(۱۰) حدیث نمبر108 کی تائید... از سنن الترمذی حدیث نمبر230، صحیح ابن حبان حدیث نمبر2200، مصنف عبد الرزاق حدیث نمبر377
اس کے علاوہ بے شمار تائیدات موجود ہیں۔ یہ بھی اس بات کی قوی دلیل ہیں کہ یہ سنیوں کی کتاب ہے۔ غیر مقلدین کا اس کو شیعوں کی کتاب کہہ کر انکار کرنا غلط ہے۔
جواب شق دوم:
اولاً... مقدمہ کتاب میں شائع کنندہ شیخ عبد الواسع بن یحییٰ الواسعی نے ابو خالد الواسطی کے حالات ذکر کیے اور ان پر کی گئی جروح کا جواب دیا ہے۔ (دیکھیے مقدمہ کتاب از ص11 تا ص15)
یہی وجہ ہے کہ مصر کے مفتی اعظم اور اپنے دور کے بڑے عالم شیخ محمد بخیت مطیعی نے اس کتاب کی سند کو صحیح قرار دیا۔ فرماتے ہیں:
بالسند الصحیح الی الامام الشہید زید بن علی الخ.
(مقدمہ کتاب مسند زید: ص36)
ثانیاً... محدثین کا قاعدہ ہے کہ جس کتاب کی نسبت اپنے مصنف کی طرف مشہور ہو[کہ یہ کتاب فلاں مصنف کی ہے]تو مصنف سے لے کر ہم تک اس کی سند دیکھنے کی حاجت نہیں رہتی۔یہ شہرت اس سند کے دیکھنے سے بے نیاز کردیتی ہے۔ چنانچہ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
لان الکتاب المشہور الغنی بشہرتہ عن اعتبار الاسناد مناا لی مصنفہ
(النکت لابن حجر ص56)
اور یہ قاعدہ ان محدثین و محققین کے ہاں پایا جاتا ہے؛ امام سخاوی )فتح المغیث ج1ص44(،امام ابن حجر )النکت ص56(،علامہ جزائری )توجیہ النظر ص378(،امام سیوطی )تدریب الراوی ج1ص147(،امام کرمانی)شرح بخاری ج1ص7(
اورمسند زید(المعروف المجموع الفقہی) کا امام زید بن علی کی کتاب ہونا واضح ہے۔ سر دست چند حوالہ جات چند محققین اور خود غیر مقلدین کے حوالہ جات پیش خدمت ہیں جنہوں نے اس کتاب کو حضرت امام زید کی کتاب مانا ہے:
1: علامہ شوکانی...
(نیل الاوطار للشوکانی: ج1 ص297، ج2 ص244)
2: عمر رضا کحالہ....
(معجم المؤلفین: ج4 ص190)
3: غلام احمد حریری غیرمقلد...
(تاریخ تفسیرو مفسرین:ص550)
لہذا نیچے والی سند دیکھنے کی حاجت ہی نہیں۔ اس لیے اس اعتراض کو لے کرکتاب کا انکار کرنا غلط ہے۔
حدیث نمبر 3:
حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ زِيَادِ بْنِ زَيْدٍ السُّوَائِيِّ ، عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ: مِنْ سُنَّةِ الصَّلاَةِ وَضْعُ الأَيْدِي عَلَى الأَيْدِي تَحْتَ السُّرَرِ.
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج 3ص324 ،وضع الیمین علی الشمال، رقم الحدیث 3966)
ترجمہ: حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: (دائیں) ہاتھوں کو (بائیں) ہاتھوں پرناف کے نیچے رکھنا نماز کی سنت ہے۔
فائدہ: صحابی جب ”سنت“ کا لفظ مطلق بولے تو مراد حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت ہوتی ہے۔ تصریحات ملاحظہ ہوں:
1: قال ابن الصلاح: وهكذا قول الصحابي : ( من السنة كذا ) فالأصح أنه مسند مرفوع لأن الظاهر أنه لا يريد به إلا سنة رسول الله صلى الله عليه و سلم•
(مقدمۃابن الصلاح: ص28)
ترجمہ: علامہ ابن صلاح فرماتے ہیں: صحابی کے قول ”من السنة كذا“ کا صحیح مطلب یہ ہے کہ اس سے مراد حدیث مسند مرفوع ہے کیونکہ یہ بات ظاہر ہے کہ صحابی ”سنت“ کا لفظ بول کر اس سے سنت رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہی مراد لیتا ہے۔
2: قال الشافعی رضی اللہ عنہ: واصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم لا یقولون بالسنۃِ والحقِّ الا لسُنۃِ رسولِ للہ صلی اللہ علیہ وسلم•
(کتاب الام ج1 ص479)
ترجمہ: امام شافعی فرماتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ ”سنت“ اور ”حق“ کے الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کے لیے ہی استعمال فرماتے تھے۔
3: وقال العینی: قول علي (ان من السنة) هذا اللفظ يدخل في المرفوع عندهم وقال أبو عمر في التَّقَصِّي واعلم أن الصحابي إذا أطلق اسم السنة فالمراد به سنة النبي صلی اللہ علیہ و سلم•
(عمدۃ القاری ج4 ص389)
ترجمہ: علامہ عینی رحمہ اللہ نے فرماتے ہیں: سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ”ان من السنۃ“ والے الفاظ محدثین کے نزدیک حدیث مرفوع میں داخل ہیں۔ محدث ابو عمر یوسف بن عبد اللہ ابن عبد البر نے اپنی کتاب ”التقصی لحدیث المؤطا و شیوخ الامام مالک“ میں فرمایا کہ کوئی صحابی جب مطلقاً سنت کا لفظ استعمال فرمائے تو اس سےنبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت ہی مراد ہوتی ہے۔
4: قال جمال الدین ا لزیلعی: وَاعْلَمْ أَنَّ لَفْظَةَ السُّنَّةِ يَدْخُلُ فِي الْمَرْفُوعِ عِنْدَهُم
(نصب الرایۃ: ج1 ص393 باب وضع الیمنیٰ علی الیسریٰ فی الصلاۃ)
ترجمہ: علامہ جمال الدین زیلعی فرماتے ہیں کہ محدثین کے نزدیک ”سنت“ کا لفظ حدیث مرفوع میں داخل ہے۔
5: مبشر احمد ربانی غیر مقلد لکھتے ہیں: یہ بات اصول حدیث میں واضح ہے کہ جب صحابی کسی امر کے بارے میں کہے کہ یہ سنت ہے تو اس سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہی ہوتی ہے۔
(آپ کے مسائل اور ان کا حل ج2 ص142)
شبہ:
غیر مقلدین کہتے ہیں کہ اس کی سند میں ایک راوی عبدالرحمن بن اسحاق الکوفی ہے جو کہ ضعیف ہے۔
جواب نمبر1:
اصول ہے کہ حدیث سے استدلال اس حدیث کی صحت کی دلیل ہے۔
1:علامہ ابن الہمام رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
المجتہد اذا استدل بحدیث کان تصحیحاً لہ•
(التحریر لابن الہمام بحوالہ رد المحتار: ج7 ص83)
ترجمہ: مجتہد جب کسی حدیث سے استدلال کرے تو وہ اس کی طرف سے حدیث کی تصحیح شمار ہوتی ہے۔
2: علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
وقد احتج بھذا الحدیث احمد وابن المنذر وفی جزمہما بذالک دلیل علی صحتہ عندہما.
( التلخیص الحبیر لابن حجر،ج 2،ص143 تحت رقم الحدیث 807)
ترجمہ: اس حدیث کو امام احمد اور امام ابن المنذر نے دلیل بنایا ہےاوران دونوں کا اس حدیث کو پختگی کے ساتھ دلیل بنانا اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک یہ حدیث صحیح ہے۔
امام احمد اور امام ابن المنذر نے اس حدیث کو دلیل بنایا ہے اور اس حدیث پر ان دونوں کا اعتماد اس بات کی دلیل ہے کہ یہ حدیث ان کے نزدیک صحیح ہے۔
3: محدث و فقیہ علامہ ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فی جز م کل مجتہد بحدیث دلیل علی صحتہ عندہٗ.
(قواعد فی علوم الحدیث ،ص58)
ترجمہ: کسی مجتہد کا کسی حدیث پر اعتماد کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ حدیث اس مجتہد کے نزدیک صحیح ہے۔
اس اصول کے تحت درج ذیل ائمہ نے اس روایت سے استدلال کیا ہے جو دلیل ہے کہ یہ روایت صحیح ہے۔
1:امام اسحاق بن راہویہ م238ھ
(الاوسط لابن المنذر ج3ص94)
2:امام احمد بن حنبل م241ھ
(مسائل احمد بروایۃ ابی داود ص31)
3:امام ابوجعفر الطحاوی م321ھ
(احکام القرآن للطحاوی ج1ص187)
4:امام ابوبکر الجصاص الرازی م370ھ
(احکام القرآن ج3ص476)
5:امام ابوالحسین القدوری م428ھ
(التجرید للقدوری ج1ص479 باب وضع الیدین فی الصلاۃ)
6:امام ابوبکر السرخسی م490ھ
(المبسوط للسرخسی ج1ص24)
7:امام ابوبکر الکاسانی م578ھ
(بدائع الصنائع ج1ص469)
8:امام المرغینانی م593ھ
(الہدایہ ج1ص86)
9:علامہ ضیاء الدین المقدسی م643ھ
(الاحادیث المختارہ ج3ص386،387)
10:امام ابومحمد المنبجی م686ھ
(اللباب فی الجمع بین السنۃ و الکتاب: ج1 ص247)
11:علامہ ابن القیم م751ھ
(بدائع الفوائد: ج3 ص73)
جواب نمبر2:
زبیر علی زئی صاحب لکھتے ہیں: روایت کی تصحیح وتحسین اس کے ہر ہر راوی کی توثیق ہوتی ہے۔
(مقدمہ جزء رفع یدین:ص14 مترجم)
ہم ان محدثین و غیرہ کا ذکر کرتے ہیں جنہوں نے ان احادیث کو ”صحیح“ یا” حسن“ کہا ہے جن میں راوی مذکورعبدالرحمٰن بن اسحاق ہے،تو مذکورہ قاعدہ کی رو سے یہ اس راوی کی توثیق ہو گی۔
1: امام ترمذی:حسن
(جامع الترمذی رقم3563)
2: امام حاکم: صحیح الاسناد
(مستدرک حاکم رقم1973کتاب الدعاء والتکبیر )
3: امام ذہبی: صحیح الاسناد
(مستدرک حاکم رقم1973کتاب الدعاء والتکبیر )
4: امام ضیاء الدین مقدسی:عبد الرحمٰن بن اسحاق سے روایت لی ہے۔
(دیکھیے: الاحادیث المختارۃ: ج3ص386،387)
تنبیہ: علی زئی صاحب کے نزدیک ضیاء مقدسی کا کسی حدیث کی تخریج کرنا اس حدیث کی صحت کی دلیل ہے۔
(تعداد رکعت قیام رمضان ص23)
5:ناصرالدین البانی غیرمقلد: حسن
(جامع الترمذی: رقم3563، باحکام الالبانی)
6: خود زبیر علی زئی نے عبد الرحمٰن بن اسحاق کی ایک روایت کو ’’حسن“ کہا ہے۔
(جامع الترمذی: تحت رقم3563، باحکام علی زئی)
جواب نمبر3:
غیر مقلدین حضرات امام عبدالرحمٰن بن اسحاق پر جرح تو نقل کرتے ہیں لیکن جن محدثین نے ان کی تعدیل وتوثیق کی ہے ان کا ذکر نہیں کرتے، لیجیے ان کی تعدیل و توثیق پیش خدمت ہے:
1:امام احمد بن حنبل:صالح الحدیث. کہ روایت میں اچھا ہے۔
(مسائل احمد بروایۃ ابی داؤد ص31)
یاد رہے کہ ”صالح الحدیث“ الفاظِ تعدیل میں شمارکیا گیا ہے
(قواعد فی علوم الحدیث ص249)
2:امام عجلی: آپ نے اس راوی کو ثقات میں شمار کیا ہے۔
(معرفۃ الثقات ج2ص72)
3:امام ترمذی:اس کی حدیث کو ”حسن“ کہا۔
(سنن الترمذی رقم3563)
4:امام مقدسی:اس کی حدیث کو صحیح قرار دیا۔
(الاحادیث المختارۃ: ج3ص386،387)
5:امام بزار:صالح الحدیث. کہ روایت میں اچھا ہے۔
(مسند بزار تحت حدیث رقم696)
6:محدث عثمانی:اس کی حدیث ”حسن“ درجہ کی ہے۔
(اعلاء السنن ج2ص193)
یاد رہے کہ اصول حدیث کا قاعدہ ہے کہ جس راوی پر جرح بھی ہو اور محدثین نے اس کی تعدیل وتوثیق بھی کی ہو تو اس کی حدیث ”حسن“درجہ کی ہوتی ہے۔
(قواعد فی علوم الحدیث: ص75)
تو اصولی طور پر یہ راوی حسن الحدیث درجے کا ہے، ضعیف نہیں۔ لہذا یہ روایت صحیح و حجت ہے اور اعتراض باطل ہے۔
حدیث نمبر4:
عَنْ اَنَسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: مِنْ أَخْلَاقِ النُّبُوَّةِ تَعْجِيْلُ الْإِفْطَارِ وَتَأْخِيْرُ السُّحُوْرِ وَوَضْعُكَ يَمِيْنَكَ عَلٰى شِمَالِكَ فِي الصَّلَاةِ تَحتَ السُّرَّةِ .
(مختصر خلافیات البیہقی لاحمد بن الفرْح: ج2 ص34، الجوہر النقی علی البیہقی: ج2 ص32)
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : انبیاءِ کرام علیہم السلام کے اخلاق میں سے یہ چیزیں ہیں؛ روزہ جلدی افطار کرنا، سحری دیر سے کرنا اورنماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پرناف کے نیچے رکھنا۔
شبہ:
غیر مقلدین کہتے ہیں کہ اس روایت کا ایک راوی سعید بن زَرْبی مجروح ہے۔ لہذا یہ روایت ضعیف ہے۔
جواب:
اولاً……. سعید بن زَرْبی پر اگرچہ کلام کیا گیا ہے لیکن شاہد اور مؤیدات کی بناء پر یہ روایت صحیح شمار ہوگی۔
شاہد: عَنْ عَلِیّ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ: قَالَ ثَلاَثٌ مِّنْ اَخْلَاقِ الْاَنْبِیَاءِ- صَلَوَاتُ اللہِ وَسَلَامُہُ عَلَیْھِمْ- تَعْجِیْلُ الْاِفْطَارِ وَ تَاخِیْرُ السُّحُوْرِ وَوَضَعُ الْکَفِّ عَلَی الْکَفِّ تَحْتَ السُّرَّۃِ•
(مسند زید بن علی ص: ص219 باب الافطار. رقم الحدیث300)
ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تین چیزیں انبیاء علیہ السلام کے اخلاق میں سے ہیں: (۱) روز ہ جلدی افطار کرنا، (۲) سحری دیر سے کرنا اور (۳) نماز میں(دائیں) ہتھیلی کو (بائیں) ہتھیلی پر ناف کے نیچے رکھنا۔
ثانیاً……. اس روایت کی معنوی تائید حدیثِ علی رضی اللہ عنہ اور حدیثِ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے بھی ہوتی ہے۔
(دیکھیے:مصنف ابن ابی شیبۃ،باب وضع الیمین علی الشمال،رقم الحدیث 3966،رقم الحدیث 3959)
ثالثاً……. جامع الترمذی کی ایک روایت کو ناصر الدین البانی صاحب غیر مقلد نے ”صحیح“ قرار دیا ہے اور اس میں یہی سعید بن زربی موجود ہے۔
(دیکھیے جامع الترمذی باحکام الالبانی: رقم3544، باب خلق الله ماتہ رحمۃ، مکتبہ شاملہ)
خلاصہ یہ کہ یہ روایت مؤیدات اور شاہد کی بناء پر صحیح ہے۔ وللہ الحمد
احادیث موقوفہ:
1: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَحْبُوبٍ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ عَنْ زِيَادِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ أَبِى جُحَيْفَةَ أَنَّ عَلِيًّا رضى الله عنه قَالَ السُّنَّةُ وَضْعُ الْكَفِّ عَلَى الْكَفِّ فِى الصَّلاَةِ تَحْتَ السُّرَّةِ•
(سنن ابی داؤد: ج1 ص117 باب وضع الیمنی ٰ علی الیسریٰ فی الصلوۃ )
ترجمہ: حضرت ابو جحیفہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں کہ نماز میں (دائیں) ہتھیلی کو (بائیں) ہتھیلی پر ناف کے نیچے رکھنا سنت ہے۔
2: عن ابی جحیفۃ عن علی قال ان من السنۃ فی الصلوۃ المکتوبۃ وضع الایدی علی الایدی تحت السرۃ•
(الاحادیث المختارہ ج2 ص387رقم ا لحدیث 772)
ترجمہ: سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: فرض نماز میں ہاتھوں کو ہاتھوں پر ناف کے نیچے رکھنا سنت ہے۔
3: عن ابی جحیفۃ عن علی قال ان من السنۃ فی الصلوۃ وضع الاکف علی الاکف تحت السرۃ•
(الاحادیث المختارہ ج2 ص387،386رقم ا لحدیث 771)
ترجمہ: سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نماز میں ہتھیلیوں کو ہتھیلیوں پر ناف کے نیچے رکھنا سنت ہے۔
4: حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ الْكُوفِىِّ عَنْ سَيَّارٍ أَبِى الْحَكَمِ عَنْ أَبِى وَائِلٍ قَالَ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ أَخْذُ الأَكُفِّ عَلَى الأَكُفِّ فِى الصَّلاَةِ تَحْتَ السُّرَّةِ.
(سنن ابی داود ج1 ص117،التمہید لابن عبد البر: ج8ص164)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: نماز میں (دائیں) ہتھیلیوں سے (بائیں) ہتھیلیوں کو پکڑ کر ناف کے نیچے رکھنا چاہیے۔
احادیث مقطوعہ:
1: جلیل القدر تابعی امام ابرہیم نخعی رحمہ اللہ کے متعلق آتا ہے:
انہ کا ن یضع یدہ الیمنی علی یدہ الیسری تحت السرۃ.
( کتا ب الآثار بروایۃ الامام محمد: جزء1 ص323 رقم الحدیث 121، مصنف ابن ابی شیبہ ج3ص322 رقم 3960)
ترجمہ: آپ رحمۃ اللہ علیہ نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھتے تھے۔
2: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا الحَجَّاجُ بْنُ حَسَّانَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا مِجْلَزٍ ، أَوْ سَأَلْتُهُ ، قَالَ: قُلْتُ: كَيْفَ اَصْنَعُ ؟ قَالَ: يَضَعُ بَاطِنَ كَفِّ يَمِينِهِ عَلَى ظَاهِرِ كَفِّ شِمَالِهِ ، وَيَجْعَلُهَا أَسْفَلَ مِنَ السُّرَّةِ.
(مصنف ابن ابی شیبہ ج3ص323 رقم الحدیث3963)
ترجمہ: حجاج بن حسان کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابومجلز رحمہ اللہ سے سنا- یا – ان سے سوال کیا کہ میں اپنے ہاتھوں کو نماز میں کیسے باندھوں؟ تو انہوں نے فرمایا: نمازی نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کے اندرونی حصہ کو بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کے ظاہری حصہ پر رکھ کر ناف کے نیچے رکھے۔
ائمہ مجتہدین:
1: امام اعظم فی الفقہاء امام ابو حنیفہ تا بعی رحمہ اللہ
( کتا ب الآثار بروایت امام محمد ص24)
2: امام سفیان ثوری (فقہ سفیان ثوری ص561)
3: امام ابو یوسف القاضی
(احکام القرآن للطحا وی ج1ص185)
4: امام محمد بن حسن الشیبا نی
(موطا امام محمد ص160)
5: امام اسحا ق بن راہویہ
( شرح مسلم للامام النووی ج1ص173)
6: امام احمد بن حنبل
(التمہید ج8ص162تحت العنوان: عبد الکریم بن ابی المخارق)
غیر مقلدین کا ایک عمومی شبہ:
احناف ناف کے نیچے ہاتھ باندھنےکو سنت کہتے ہیں لیکن ان کی عورتیں خلاف سنت نماز پڑھتی ہیں کیونکہ وہ سینہ پر ہاتھ باندھتی ہیں۔
جواب:
عورت کے بارے میں فقہاء کا اجماع ہے کہ وہ قیام کے وقت اپنے ہاتھ سینہ پر رکھے گی اور اجماع مستقل دلیل شرعی ہے۔
1: امام ابو القاسم ابراہیم بن محمد القاری الحنفی السمر قندی (م بعد907ھ) لکھتے ہیں:
وَ الْمَرْاَۃُ تَضَعُ [یَدَیْھَا]عَلٰی صَدْرِھَا بِالْاِتِّفَاقِ.
(مستخلص الحقائق شرح کنز الدقائق: ص153)
ترجمہ: عورت اپنے ہاتھ سینہ پر رکھے گی،اس پر سب فقہاء کا اتفاق ہے۔
2: سلطان المحدثین ملا علی قاری رحمہ اللہ (م1014ھ) فرماتے ہیں:
وَ الْمَرْاَۃُ تَضَعُ [یَدَیْھَا]عَلٰی صَدْرِھَا اِتِّفَاقًا لِاَنَّ مَبْنٰی حَالِھَا عَلَی السَّتْرِ.
(فتح باب العنایۃ: ج1 ص243 سنن الصلوۃ)
ترجمہ:عورت اپنے ہاتھ سینہ پر رکھے گی،اس پر سب فقہاء کا اتفاق ہے، کیونکہ عورت کی حالت کا دارو مدار پردے پر ہے۔
3: علامہ عبد الحئی لکھنوی رحمہ اللہ (م1304ھ) لکھتے ہیں:
وَاَمَّا فِیْ حَقِّ النِّسَائِ فَاتَّفَقُوْا عَلٰی اَنَّ السُّنَّۃَ لَھُنَّ وَضْعُ الْیَدَیْنِ عَلَی الصَّدْرِ لِاَنَّھَامَا اَسْتَرُ لَھَا.
(السعایۃ ج 2ص156)
ترجمہ:رہا عورتوں کے حق میں[ہاتھ باندھنے کا معاملہ]تو تمام فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ان کے لیےسنت سینہ پر ہاتھ باندھناہے کیونکہ اس میں پردہ زیادہ ہے۔
غیر مقلدین کےدلائل کا علمی جائزہ
[۱]: عن ابی الْحَرِيشِ الْكِلاَبِىُّ حَدَّثَنَا شَيْبَانُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الْجَحْدَرِىُّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ صُهْبَانَ كَذَا قَالَ إِنَّ عَلِيًّا رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ فِى هَذِهِ الآيَةِ (فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ) قَالَ: وَضْعُ يَدِهِ الْيُمْنَى عَلَى وَسْطِ يَدَهِ الْيُسْرَى ، ثُمَّ وَضْعُهُمَا عَلَى صَدْرِهِ.
(السنن الکبریٰ للبیہقی ج2ص30)
ترجمہ: سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس آیت ”فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ“ کی تفسیر میں فرمایا: اپنے دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ کے درمیان میں رکھنا ہے، پھر ان دونوں کو اپنے سینہ پر رکھنا ہے۔
جواب:
اس روایت کی سند میں ایک راوی ابو الحریش الکلابی ہے جو کہ مجہول ہے اسی وجہ سے زبیر علی زئی نے لکھا ہے:
”ابو الحریش کا ثقہ و صدوق ہونا ثابت نہیں ہماری تحقیق میں یہ روایت بلحاظ سند ضعیف ہے۔“
(الحدیث شمارہ نمبر7ص33)
[۲]: أَخْبَرَنَا أَبُو زَكَرِيَّا بْنُ أَبِى إِسْحَاقَ أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ يَعْقُوبَ بْنِ الْبُخَارِىِّ أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِى طَالِبٍ أَخْبَرَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْمُسَيَّبِ قَالَ حَدَّثَنِى عَمْرُو بْنُ مَالِكٍ النُّكْرِىُّ عَنْ أَبِى الْجَوْزَاءِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُمَا فِى قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ (فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ) قَالَ: وَضْعُ الْيَمِينِ عَلَى الشِّمَالِ فِى الصَّلاَةِ عِنْدَ النَّحْرِ•
(السنن الکبریٰ للبیہقی: ج2ص31)
ترجمہ: سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ”فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ“ کے بارے میں فرمایا: نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر سینہ کے بالائی حصہ پر (گردن سے متصل نیچے) رکھا جائے۔
جواب:
اس روایت کی سند میں کئی راوی ایسے ہیں جو سخت ضعیف و مجروح ہیں:
1: یحیی بن ابی طالب
ان کے متعلق ائمہ کے اقوال درج ذیل ہیں:
1: موسیٰ بن ہارون کہتے ہیں: اشھد انہ یکذب• کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ یحییٰ بن ابی طالب سخت جھوٹا تھا۔
(تاریخ بغداد ج12 ص203رقم الترجمہ 7513)
2: علامہ آجری کہتے ہیں: خَطَّ ابو داودُ سلیمانُ بنُ الاشعثِ علیٰ حدیثِ یحییٰ بنِ ابی طالبٍ• کہ امام ابوداؤد سلیمان بن اشعث نے یحییٰ بن ابی طالب کی حدیث پر قلم پھیر دیا تھا۔
(تاریخ بغداد ج12ص203،لسان المیزان ج6ص263)
2: روح بن المسیب
ان کے متعلق ائمہ کی آراء یہ ہیں:
1: امام ابن حبان فرماتے ہیں:یروی عن الثقات الموضوعات ویقلب الاسانید ویرفع الموضوعات لاتحل الروایۃ عنہ.
(کتاب الضعفاء والمتروکین ابن جوزی ج1ص289 رقم الترجمہ 1251)
ترجمہ: روح بن المسیب ثقہ لوگوں کی طرف منسوب کر کے من گھڑت روایات بیان کرتا تھا، سندوں کو الٹ پلٹ کرتا تھا اورمن گھڑت روایات کو حدیث رسول صلی اللہ علیہ و سلم کہہ کر بیان کرتا تھا، اس سے روایت لینا حلال نہیں ہے۔
2: علامہ ابن عدی فرماتے ہیں: احادیث غیر محفوظ• کہ اس کی احادیث غیر محفوظ ہیں۔
(الکامل فی الضعفاءج3ص58رقم الحدیث 664)
3: عمرو بن مالک النکری
اس کے متعلق ائمہ کی یہ آراء ہیں:
1،2: علامہ ابن عدی فرماتے ہیں:
منکر الحدیث عن الثقات ویسرق الحدیث ضعفہ ابو یعلی الموصلی.
(کتاب الضعفاء والمتروکین ابن جوزی ج2ص231رقم الترجمہ 2575)
ترجمہ: ثقہ رایوں کی طرف منسوب کر کے منکر احادیث بیان کرتا تھا اور احادیث کو چوری کرتا تھا۔ ابو یعلیٰ الموصلی نے اس کو ضعیف قرار دیا۔
3: حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:عمرو بن مالک یخطی ویغرب•
(تہذیب التہذیب ج5ص86 ،رقم الترجمہ 6014)
کہ عمرو بن مالک خطا کار تھا اور غریب احادیث بیان کرتا تھا۔
4: علامہ ذہبی نے اس کوضعفاء میں شمار کیا ہے۔
(المغنی فی الضعفاء ج2ص151)
5: علامہ ابن عدی فرماتے ہیں:
وَلِعَمْرٍو غَيْرُ مَا ذَكَرْتُ أَحَادِيثُ مَنَاكِيرٌ بَعْضُهَا سَرَقَهَا مِنْ قَوْمٍ ثقات.
(الکامل لابن عدی ج6ص258۔259)
کہ عمرو کی جو روایات میں نے ذکر کی ہیں ان کے علاوہ بھی اس کی کئی منکر روایات ہیں جو اس نے ثقہ راویوں سے چوری کی ہیں۔
لہذا یہ روایت سخت ضعیف ہے جو کہ صحیح روایات کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔
[۳]: أخبرنا أبو طاهر نا أبو بكر نا أبو موسى نا مؤمل نا سفيان عن عاصم بن كليب عن أبيه عن وائل بن حجر قال: صليت مع رسول الله صلى الله عليه و سلم ووضع يده اليمنى على يده اليسرى على صدره.
(صحیح ابن خزیمۃ: ج1ص272،رقم الحدیث 479 باب وضع الیمین علی الشمال فی الصلاۃ)
ترجمہ: حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ نماز پڑھی، آپ علیہ السلام نے اپنے دئیں ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ پر اپنے سینہ پر رکھا۔
جواب نمبر1:
اس کی سند میں ایک راوی ”مؤمل بن اسماعیل“ ہے جن پر بہت سارے ائمہ جرح و تعدیل نے کلام کیا ہے۔ ائمہ کی آراء ملاحظہ ہوں:
1: امام بخاری: منکر الحدیث•
(المغنی فی الضعفاء للذھبی: ج2ص446 ،میزان الاعتدال للذھبی: ج4ص417،تہذیب التہذیب لابن حجر: ج6ص489)
2: امام ابو زرعہ الرازی: فی حدیثہ خطاء کثیر. کہ اس کی حدیث میں بہت زیادہ غلطیاں تھیں۔
(میزان الاعتدال: ج4 ص417 رقم 8445)
3: امام ابن حبان: ربمااخطاَ. کہ یہ کبھی خطا کر جاتا تھا۔
(تہذیب التہذیب: ج6ص489 رقم 2877)
4: امام ابن سعد: کثیر الغلط. کثرت سے غلطیاں کرتا تھا۔
(الطبقات الکبریٰ: ج5 ص501)
5: امام عبد الباقی بن قانع بغدادی: یخطی. یہ خطا کار تھا۔
(تہذیب التہذیب: ج6 ص 490 رقم 8277)
6: امام ذھبی: اس کو ضعفاء میں شمار کرتے ہیں۔
(المغنی فی الضعفاء ج2ص446)
7: امام ابو حاتم الرازی: صدوق کثیر الخطاء• سچا ہے لیکن غلطیاں بہت کرتا تھا۔
(الجرح و التعدیل: ج8 ص427 رقم 15016)
8: امام زکریا بن یحییٰ الساجی: کثیر الخطاء لہ اوہام یطول ذکرہا. غلطیاں بہت کرتا تھا ، اس کےاو ہام کا ذکر کیا جائے تو بات بہت طویل ہو جائے گی۔
(تہذیب التہذیب: ج6 ص 490 رقم 8277)
9: امام محمد بن نصر المروزی: ایک حدیث کی تحقیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں جس میں مؤمل بن اسماعیل ہے، فرماتے ہیں:
فإن هذا حديث لم يروه عن حماد بن زيد غير المؤمل وإذا انفرد بحديث وجب أن توقف ويتثبت فيه لأنه كان سیئ الحفظ كثير الغلط•
کہ اس حدیث کو حماد بن زید سے مؤمل بن اسماعیل کے علاوہ کوئی نقل روایت نہیں کرتا او مؤمل جب کسی روایت میں منفرد ہو تو اس روایت میں توقف اور غور و فکر کرنا ضروری ہے کیونکہ مؤمل کا حافظہ خراب تھا اور یہ غلطیاں بہت کرتا تھا۔
(تعظیم قدر الصلاۃ للمروزی: ص574)
10: یعقوب بن سفیان الفارسی: أن حديثه لا يشبه حديث أصحابه، حتى ربما قال: كان لا يسعه أن يحدث وقد يجب على أهل العلم أن يقفوا عن حديثه، ويتخففوا من الرواية عنه؛ فإنه منكر يروي المناكير عن ثقات شيوخنا، وهذا أشد•
(کتاب المعرفۃ و التاریخ: ج3 ص492)
کہ اس کی حدیث اس کے ہم جماعت محدثین سے نہیں ملتی (یعنی ان کی روایات سے مختلف ہوتی ہے حالانکہ یہ ایک ہی استاذ کے شاگرد ہوتے ہیں) یعقوب کبھی کبھی یوں بھی فرماتے تھے: مؤمل کو حق نہیں پہنچتا کہ حدیث بیان کرے۔ اہلِ علم پر لازم ہے کہ اس سےحدیث لینے سے محتاط ہو جائیں اور (اگر لیں تو) کم سے کم روایات لیں کیونکہ یہ منکر روایات بیان کرتا ہے۔ اس پر مزید یہ کہ یہ ہمارے ثقہ اساتذہ کی طرف منسوب کر کے منکر روایات بیان کرتا ہے اور یہ اس سے بھی زیادہ غضب کی بات ہے۔
11: امام دار قطنی: کثیر الخطاء• غلطیاں بہت کرتا تھا۔
(سوالات الحاکم للدارقطنی: 492)
12: امام احمد بن حنبل: مؤمل کان یخطئی . مؤمل خطا کار تھا۔
(سوالات المروزی: 53)
13: حافظ ابن حجر العسقلانی: صدوق سیئ الحفظ• سچاتو ہے لیکن خراب حافظہ کا مالک تھا۔
(تقریب التہذیب:7029 رقم 584)
دوسرے مقام پر لکھتے ہیں: مؤمل بن إسماعيل في حديثه عن الثوري ضعف. مؤمل بن اسماعیل کی جو روایت سفیان ثوری سے ہو وہ ضعیف ہوتی ہے۔ (فتح الباری: ج9 ص297) كثير الخطأ• یہ کثرت سےغلطیاں کرتا تھا۔ (ج13 ص42)
اور یہ روایت بھی مؤمل عن الثوری کے طریق سے مروی ہے۔
14: علامہ ابن الترکمانی: دفن کتبہ فکان یحدث من حفظہ فکثر خطاءہ• کہ اس کی کتب دفن ہو گئیں تھیں یعنی گم ہو گئیں تھیں اور یہ اپنے حافظے سے احادیث بیان کرتا تھا اس لیے اس کی اغلاط زیادہ ہو گئیں۔
(الجوہر النقی: ج2 ص30)
15: علامہ نور الدین الہیثمی: آپ نے مجمع الزوائد میں مختلف مقام پر مؤمل پر کلام کیا ہے، چند یہ ہیں:
ضعفه البخاري• امام بخاری نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
(تحت ح6532 باب کراہیۃ شراء الصدقۃ لمن تصدق بھا)
ضعفه البخاري وغيره• امام بخاری اور دیگر محدثین نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
(تحت ح7385 باب نکاح المتعۃ)
ضعفه الجمهور• جمہور محدثین نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
(تحت ح8068 باب فی حمر الاھلیۃ)
ضعفه جماعة • محدثین کی ایک جماعت نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
(تحت ح8563باب ما جاء فی الصباغ)
ضعفه البخاري وغيره• امام بخاری اور دیگر محدثین نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
(تحت ح8917 باب الخلفاء الاربعۃ)
علامہ الہیثمی کے اس مجموعی کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک مؤمل بن اسماعیل ”ضعیف عند الجمہور“ ہے۔
حتی کہ خود غیر مقلدین نے بھی اس پر کلام کیا یا دیگر حضرات کا کلام نقل کیا۔
 ناصرالدین البانی صاحب نے اس پر جرح کی اور کہا:
ضعيف لسوء حفظه وكثرة خطإه•
(سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ: ج2 ص293)
کہ مؤمل اپنے خراب حافظے اور کثرت سے غلطیاں کرنے کی وجہ سے ضعیف ہے۔
اورابنِ خزیمہ کی اس سند کے بارے میں کہا:
اسنادہ ضعیف لان مؤملاوھو ابن اسماعیل سیئی الحفظ.
(حاشیہ ابن خزیمہ ج1ص272 باب فی الخشوع فی الصلاۃ)
کہ اس روایت کی سند ضعیف ہے کیونکہ اس کے راوی مؤمل بن اسماعیل کا حافظہ خراب تھا۔
 محمد عبد الرحمٰن مبارکپوری غیر مقلد نے امام بخاری اور حافظ ابن حجر کا کلام نقل کر کے اس کا مؤمل کا ضعیف ہونا ثابت کیا۔
(دیکھیےتحفۃ الاحوذی: ج6 ص67)
 عبد الرؤف بن عبد الحنان سندھو غیر مقلد نے لکھا:
”یہ سند ضعیف ہے کیونکہ مؤمل بن اسماعیل سئی الحفظ ہے جیسا کہ ابن حجر نے تقریب (۲/ ۹۰) میں کہا ہے۔ ابو زرعہ نے کہا ہے کہ یہ بہت غلطیاں کرتا ہے۔ امام بخاری نے اسے منکر الحدیث کہا ہے۔ ذہبی نے کہا ہے کہ یہ حافظ عالم ہے مگر غلطیاں کرتا ہے۔ میزان (۴/ ۲۲۸)“
(القول المقبول فی شرح و تعلیق صلاۃ الرسول از عبد الرؤف بن عبد الحنان غیر مقلد: ص340)
جواب نمبر 2:
اس روایت کے راوی امام سفیان ثوری ہیں جو خود ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کے قائل ہیں۔
(فقہ سفیان الثوری ص561)
اور جب راوی کا اپنا عمل اپنی روایت کے خلاف ہو تو وہ روایت قابل عمل نہیں ہوتی کیونکہ اصول حدیث کا قاعدہ ہے:
عمل الراوی بخلاف روایتہ بعد الروایۃ مما ہو خلاف بیقین یسقط العمل بہ عندنا•
(المنار مع شرحہ ص190)
کہ راوی کا عمل روایت کو بیان کرنے کے بعد اس کے خلاف ہو تو ہمارے ہاں اس روایت پر عمل نہیں کیا جاتا۔
لہذا یہ روایت ساقط العمل ہے۔
[۴]: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ سُفْيَانَ حَدَّثَنِي سِمَاكٌ عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ هُلْبٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْصَرِفُ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ يَسَارِهِ وَرَأَيْتُهُ قَالَ يَضَعُ هَذِهِ عَلَى صَدْرِه•
( مسند احمد ج16ص152 رقم 21864)
ترجمہ: حضرت قبیصہ بن ھلب کے والد حضرت ھلب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا، آپ اپنے دائیں اور بائیں طرف سلام پھیرتے تھے، میں نے آپ علیہ السلام کو دیکھا کہ آپ اپنے اس ہاتھ کو اپنے سینہ پر رکھتے تھے۔
جواب نمبر1:
اولا……… اس میں ایک راوی سماک بن حرب ہے جس پر بہت سارے ائمہ نے کلام کیا ہے۔
1: امام شعبہ بن الحجاج: یضعفہ. اسے ضعیف قرار دیتے تھے۔
(تاریخ بغداد: ج7 ص272 رقم الترجمۃ 4791)
2: امام احمد بن حنبل: سماک مضطرب الحدیث• سماک کی حدیث میں اضطراب ہے۔
(الجرح و التعدیل: ج4 ص279)
3: امام صالح جَزرہ: یضعف• اسے ضعیف قرار دیتے تھے۔
(میزان الاعتدال ج2ص216)
4: محمد بن عبد اللہ بن عمار الموصلی:
یقولون انہ کا ن یغلط ویختلفون فی حدیثہ.
(تاریخ بغداد: ج7 ص272 رقم 4791)
محدثین کا فیصلہ ہے کہ یہ غلطیاں کرتا تھا ، اس لیے یہ اس کی حدیث میں اختلاف کرتے ہیں۔
5: امام عبد اللہ بن المبا رک: ضعیف فی الحدیث• حدیث میں ضعیف تھا۔
(تہذیب الکمال: ج8 ص131، تہذیب ج3ص67)
6: امام عبد الرحمٰن بن یوسف بن خراش :فی حدیثہ لین. اس کی حدیث میں ضعف ہے۔
(تاریخ بغداد: ج7 ص272 رقم 4791)
7: امام ا بن حبان: یخطئ کثیراً. بہت زیادہ غلطیاں کرتا تھا۔
(تہذیب ج3ص67۔68، کتاب الثقات: ج4 ص339)
8: امام سفیان الثوری: یضعفہ بعض الضعف• اس کو کچھ ضعیف قرار دیتے تھے۔
(تاریخ الثقات: رقم 621، تاریخ بغداد: ج9 ص216)
9: امام بزار: وکان قد تغیر قبل موتہ• وفات سے پہلے اس کا حافظہ متغیر ہوگیا تھا۔
(تہذیب ج3ص68)
10: امام عقیلی: اس کو ضعفاء میں شمار کرتے ہیں۔
(الضعفاء الکبیر للبیہقی ج2ص178)
11: امام ذہبی: اس کو ضعفاء میں شمار کرتے ہیں۔
(المغنی للذہبی ج1ص448)
12: امام ابن الجوزی: اس کو ضعفاء میں شمار کرتے ہیں۔
(الضعفاء والمتروکین لابن جوزی ج2ص26)
13: امام نسائی: وَسِمَاكٌ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ وَكَانَ يَقْبَلُ التَّلْقِينَ
• (سنن النسائی: تحت ح5693 باب ذكر الأخبار التي اعتل بها من أباح شراب السكر)
کہ سماک قوی نہیں، یہ تلقین کو قبول کرتا تھا۔
ایک مقام پر فرمایا:
اذا انفرد باصل لم یکن بحجۃ لانہ کا ن یلقن فیتلقن•
(میزان الاعتدال ج2ص216، تحفۃ الاشراف للمزی: ج5 ص137، 138)
کہ جب یہ کسی روایت میں منفرد ہو تو حجت نہیں کیونکہ اس کو تلقین کی جاتی تو یہ اسے قبول کر لیتا تھا۔
14: امام ابو القاسم الکعبی م 319ھ نے سماک کو”با ب فیہ ذکر من رموہ بانہ من اہل البدع واصحا ب الاھواء“ [اس باب میں ان لوگوں کا ذکر ہو گا جن کو محدثین نے اہلِ بدعت اور خواہش پرست قرار دیا] کے تحت ذکرکیا ہے۔
(دیکھئے قبول الاخبار ومعرفۃ الرجا ل ج2ص381۔390 )
ان تصریحا ت سے ثا بت ہو ا کہ سماک بن حرب جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔
ثانیاً……… علی زئی غیر مقلد نے ایک مقام پر لکھا:
”جو راوی کثیر الخطاء، کثیر الاوھام، کثیر الغلط اور سئی الحفظ ہو اس کی منفرد حدیث ضعیف ہوتی ہے۔“
(نور العینین: ص63)
اور سماک بن حرب بھی ضعیف، مضطرب الحدیث، خطا کار، لیس بالقوی (کما تقدم) ہونے کے ساتھ ساتھ بقول امام نسائی جب کسی روایت میں منفرد ہو تو حجت نہیں۔
(میزان الاعتدال ج2ص216، تحفۃ الاشراف للمزی: ج5 ص137، 138)
اور اس روایت میں یہ منفرد ہے۔ لہذا یہ روایت ضعیف ہے اور تحت السرہ والی صحیح روایات کا مقا بلہ نہیں کر سکتی۔
جواب نمبر2:
حدیث ھلب طائی درج ذیل کتب میں کئی طرق سے موجود ہے:
1: مصنف ابن ابی شیبہ (ج3 ص317 باب وضع الیمین علی الشمال. رقم الحدیث3955)
2: مسند احمد بن حنبل (ج16 رقم الحدیث21865، 21866، 21868، 21871، 21872، 21873)
3: مسند احمد بن منیع (بحوالہ اتحاف الخیرۃ المہرۃ: ج2 ص402 رقم الحدیث1803)
4: سنن الترمذی (ج1 ص59 باب ما جاء فی وضع الیمین علی الشمال فی الصلاۃ)
5: مختصر الاحکام للطوسی (ص107 باب ما جاء فی وضع الیمین علی الشمال فی الصلاۃ)
6: سنن ابن ماجہ (ج1 ص58 باب وضع الیمین علی الشمال فی الصلاۃ)
7: سنن الدار قطنی (ج1 ص288 باب فی اخذ الشمال بالیمین فی الصلاۃ)
8: السنن الکبریٰ للبیہقی (ج2 ص29 باب وضع اليد اليمنى على اليسرى فى الصلاة)
9: التمہید لابن عبد البر (ج8 ص160تحت العنوان: عبد الکریم بن ابی المخارق)
10: الاستذکار لابن عبد البر (ج2 ص290)
11: شرح السنۃ للبغوی (ج2 ص193 رقم الحدیث571)
12: التحقیق لابن الجوزی (ج1 ص338 رقم الحدیث435)
لیکن ان میں کسی بھی طریق میں ”علی صدرہ“ کے الفاظ نہیں ہیں۔ ثابت ہوا کہ مسند احمد کی مذکورہ روایت میں یہ الفاظ سماک بن حرب (ضعیف) کی وجہ سے زائد ہوئے ہیں جو کہ صحیح روایات کے مقابلے میں حجت نہیں۔
[۵]:عَنْ طَاوُسٍ قَالَ كَانَ النَّبِیُّ صلى الله عليه وسلم يَضَعُ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى يَدِهِ الْيُسْرَى ثُمَّ يَشُدُّ بَيْنَهُمَا عَلَى صَدْرِهِ وَهُوَ فِى الصَّلاَةِ.
(صلاۃ الرسول از صادق سیالکوٹی: ص188، رسول اکرم کی نماز از اسماعیل سلفی:ص67بحوالہ مراسیل ابی داؤد)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز کی حالت میں اپنے دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ پر رکھتے تھے، پھر ان کو اپنے سینہ پر باندھ دیتے تھے۔
جواب نمبر1:
اس کی سند میں ایک راوی ”سلیمان بن موسیٰ“ ہے۔ اس پر بہت سے ائمہ نے زبردست جرح کی ہے۔
1:امام بخاری:عندہ مناکیر• اس کی روایات منکر ہوتی ہیں۔
(الضعفاء الصغیر للبخاری ص55،56)
2:امام نسائی:لیس بالقوی فی الحدیث. حدیث میں قوی نہیں تھا۔
(الضعفاء والمتروکین للنسائی ص186)
3:امام عقیلی: اس کو ضعفاء میں شمار کرتے ہیں۔
(الضعفاء الکبیر للعقیلی ج2ص140)
4: امام ابو حاتم الرازی: فی حدیثہ بعض الاضطراب• اس کی حدیث میں کچھ اضطراب ہے۔
(الجرح و التعدیل: ج4 ص135 رقم 5734)
5:امام ذہبی: اس کو ضعفاء میں شمار کرتے ہیں۔
(المغنی فی الضعفاء ج1 ص445)
6: حافظ ابن حجر: في حديثه بعض لين وخولط قبل موته بقليل. اس کی حدیث میں کچھ ضعف ہے اور وفات سے پہلے کچھ اختلاط کا شکار ہو گیا تھا۔
(تقریب: ص289 رقم 2616)
7: امام علی بن المدینی: سليمان بن موسى مطعون عليه. سلیمان بن موسىٰ پر طعن یعنی جرح کی گئی ہے۔
(الضعفاء الکبیر للعقیلی ج2ص140)
لہذا یہ روایت ضعیف ہے۔
جواب نمبر2: (الزامی) یہ روایت مرسل ہے اور مرسل غیرمقلدین کے ہاں ضعیف ہوتی ہے۔ لہذا اس کو پیش کرنا خود غیرمقلدین کے اصول پر بھی درست نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زبیر علی زئی غیر مقلد نے اس روایت کے متعلق لکھا ہے: ”ہمارے نزدیک یہ روایت مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔“
(نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام: ص24 از علی زٸی ک

Monday, November 28, 2022

درویش اور کمسن چیلا

🪷ایک کہانی بڑی پرانی ، 🪷
ہر دور میں ہے کام آنی)

ایک درویش اور اس کا کمسن چیلا شہر سے دور کسی جنگل میں رہتے تھے۔ درویش عام طور پر یاد ِخدا میں مصروف رہتا تھا اور چیلا آس پاس کی بستیوں سے بھیک مانگ کر اس کی خدمت کیا کرتا تھا۔ درویش کا دل انسانیّت کے درد سے لبریز تھا اور وہ صبح شام انتہائی سوزوگداز کے ساتھ یہ دعا کیا کرتا تھا *“میرے پروردگار! میں ایک بے بس اور بے وسیلہ انسان ہوں اور تیرے بندوں کی کوئی خدمت نہیں کر سکتا، لیکن اگر تو مجھے بادشاہ بنا دے تو میری زندگی کی ہر سانس بھوکے اور ننگے انسانوں کی خدمت کے لیے وقف ہوگی ۔ میں یتیموں، بیواؤں اور نادار لوگوں کی سرپرستی کروں گا۔ میں محتاجوں کے لیے لنگر خانے کھولوں گا۔ میں عدل و انصاف کا بول بالا کروں گا۔ رشوت خور اور بددیانت اہلکاروں کو عبرت ناک سزائیں دوں گا۔ مظلوم مجھے اپنی ڈھال سمجھیں گے اور ظالم میرے نام سے کانپیں گے۔ میں نیکی اور بھلائی کو پروان چڑھاوں گا۔!*
کمسن چیلے کو یہ یقین تھا کہ کسی دن مرشد کی دعا ضرور سنی جائے گی اور پھر ان کے دن آجائیں گے۔ لیکن وقت گزرتا گیا، چیلا جوان ہو گیا اور نیک دل درویش میں بڑھاپے کے آثار ظاہر ہونے لگے۔ رفتہ رفتہ چیلے کے اعتقاد میں فرق آنے لگا، یہاں تک کہ جب درویش دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتا تو وہ اس کے قریب بیٹھنے کی بجائے چند قدم دور بیٹھتا اور دبی زبان سے یہ دعا شروع کر دیتا۔

*“میرے پروردگار! اب میرا مرشد بوڑھا ہو چکا ہے۔ اسکے بال سفید ہو چکے ہیں۔ دانت جھڑ چکے ہیں اور بینائی جواب دے چکی ہے۔ اب وہ مجھے تخت کی بجائے قبر سے زیادہ قریب دکھائی دیتا ہے۔ اگر تجھے ایک نیک دل آدمی کا بادشاہ بننا پسند نہیں تو مجھے بادشاہ بنا دے۔ میں یہ عہد کرتا ہوں کہ میرا ہر کام اپنے مرشد کی خواہشات کے الٹ ہوگا۔ میں صدق دل سے عہد کرتا ہوں کہ میں ناداروں کو زیادہ نادار اور بے بسوں کو زیادہ بے بس اور مظلوموں کو زیادہ مظلوم بنانےکی کوشش کروں گا۔ میں چوروں اور ڈاکوؤں کی سرپرستی کروں گا۔ میں شرفاء کو ذلیل کروں گا۔ اور ذلیلوں کو عزت کی کرسیوں پر بیٹھاؤں گا۔ میں راشی اور بد دیانت اہلکاروں کی سرپرستی کروں گا۔!!*
ابتداء میں یہ ہوشیار چیلا چُھپ چُھپ کر دعائیں کیا کرتا تھا، لیکن آہستہ آہستہ اسکا حوصلہ بڑھتا گیا اور کچھ مدت بعد اس کی حالت تھی کہ جب مرشد دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتا تو وہ بھی اس کے قریب بیٹھ کر ہی بلند آواز میں اپنی دعا دہرانی شروع کر دیتا۔ درویش اپنی آنکھوں میں آنسو بھر کر یہ کہتا کہ اگر بادشاہ بن جاؤں تو عدل و انصاف نیکی اور سچائی کا بول بالا کروں اور چیلا قہقہ لگا کر یہ کہتا کہ اگر میں بادشاہ بن جاؤں تو ظلم اور بدی کا جھنڈا بلند کروں۔ درویش کہتا کہ میرے خزانے سے معذور اور نادار لوگوں کو وظائف ملیں گے اور چیلا  کہتا کہ میں ان پر سخت جرمانے عائد کروں گا۔ درویش اسے ڈانٹ ڈپٹ کرتا اور بسا اوقات ڈنڈا اٹھا کر پیٹنا شروع کردیتا، لیکن چیلا اپنی روایتی نیازمندی کے باوجود اپنے موقف پر ڈٹا رہا۔!!
پھر وہی ہوا جو پرانے وقتوں میں ہوا کرتا تھا۔ یعنی ملک کا بادشاہ چل بسا اور تخت کے کئی دعویدار ایک دوسرے کے خلاف تلواریں سونت کر میدان میں آگئے۔ دور اندیش وزیر نے راتوں رات تمام دعوے داروں کو جمع کر کے یہ تجویز پیش کی کہ اب ملک کو خانہ جنگی سے بچانے کی ایک ہی صورت باقی رہ گئی ہے اور وہ یہ کہ شہر کے تمام دروازے بند کر دیے جائیں اور علی الصباح باہر سے جو آدمی سب سے پہلے مشرقی دروازے پر دستک دے، اسے بادشاہ تسلیم کر لیا جائے۔!!
یہ تجویز باتفاق رائے منظور کی گئی۔ پھر یہ ہوا کہ نیک دل درویش کا چیلا بھیک مانگنے کے لیے کسی چھوٹی موٹی بستی کا رخ کرنے کے بجائے ملک کے دارالحکومت کی طرف جا نکلا۔ پو پھٹتے ہی اس نے شہر کے مشرقی دروازے پر دستک دی، پہریداروں نے دروازہ کھول کر اسے سلامی دی اور امراء اسے ایک جلوس کی شکل میں شاہی محل کی طرف لے گئے۔!!
نئے بادشاہ نے تخت پر رونق افروز ہوتے ہی یہ حکم جاری کیا کہ میری سلطنت میں جتنے درویش، فقیر اور سادھو ہیں، انھیں کسی تاخیر کے بغیر گرفتار کرلیا جائے۔ اس حکم کی تعمیل کی گئی، لیکن خوش قسمتی سے نئے بادشاہ کے مرشد کو کسی طرح یہ پتہ چل گیا کہ اس ہوشیار چیلے کی دعا قبول ہوگئی ہے اور وہ سرحد عبور کر کے کسی دوسرے ملک میں چلا گیا۔!!
اسکے بعد جو ہوا، وہ کسی تشریح یا تبصرے کا محتاج نہیں۔ نئے بادشاہ نے پوری مستعدی اور دیانتداری کے ساتھ اپنے تمام وعدے پورے کیے۔ نہروں کا پانی بند کر دیا گیا۔ کنوئیں اور تالاب غلاظت سے بھر دیے گئے۔ چوروں اور ڈاکوؤں کو جیلوں سے نکال کر حکومت کا کاروبار سونپ دیا گیا۔ نیک خدا پرست انسانوں پر ظلم کی انتہا کر دی گئی۔۔۔!!

       ☘️ *سُنّی فرنٹ* ☘️

Sunday, November 27, 2022

40 طرح ک سدقہ

🪷 _40 TARAH KA SADQA_ 🪷
*40 طرح کا صدقہ*
ایک دفعہ ضرور پڑھ لیں.
ان شاءاللہ بہت فائدہ ہوگا.
1. دوسرے کو نقصان پہنچانے سے بچنا صدقہ ہے۔ [بخاری: 2518]
2. اندھے کو راستہ بتانا صدقہ ہے۔ [ابن حبان: 3368]
3. بہرے سے تیز آواز میں بات کرنا صدقہ ہے۔ [ابن حبان: 3368]
4. گونگے کو اس طرح بتانا کہ وہ سمجھ سکے صدقہ ہے۔ [ابن حبان: 3377]
5. کمزور آدمی کی مدد کرنا صدقہ ہے۔ [ابن حبان: 3377]
6. راستے سے پتھر,کانٹا اور ہڈی ہٹانا صدقہ ہے۔ [مسلم: 1007]
7. مدد کے لئے پکارنے والے کی دوڑ کر مدد کرنا صدقہ ہے۔ [ابن حبان: 3377]
8. اپنے ڈول سے کسی بھائی کو پانی دینا صدقہ ہے۔ [ترمذی: 1956]
9. بھٹکے ہوئے شخص کو راستہ بتانا صدقہ ہے۔ [ترمذی: 1956]
10. لا الہ الا الله کہنا صدقہ ہے۔ [مسلم: 1007]
https://chat.whatsapp.com/9Vtj3Hu7KxB6uX254VlXjX

11. سبحان الله کہنا صدقہ ہے۔ [مسلم: 1007]
12. الحمدلله کہنا صدقہ ہے۔ [مسلم: 1007]
13. الله اکبر کہنا صدقہ ہے۔ [مسلم: 1007]
14. استغفرالله کہنا صدقہ ہے۔ [مسلم: 1007]
15. نیکی کا حکم دینا صدقہ ہے۔ [مسلم: 1007]
16. برائی سے روکنا صدقہ ہے۔ [مسلم: 1007]
17. ثواب کی نیت سے اپنے گھر والوں پر خرچ کرنا صدقہ ہے۔ [بخاری: 55]
18. دو لوگوں کے بیچ انصاف کرنا صدقہ ہے۔ [بخاری: 2518]
19. کسی آدمی کو سواری پر بیٹھانا یا اس کا سامان اٹھا کر سواری پر رکھوانا صدقہ ہے ۔ [بخاری: 2518]
20. اچھی بات کہنا صدقہ ہے۔ [بخاری: 2589]
21. نماز کے لئے چل کر جانے والا ہر قدم صدقہ ہے۔ [بخاری: 2518]
22. راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا صدقہ ہے۔ [بخاری: 2518]
23. خود کھانا صدقہ ہے۔ [نسائی - کبری: 9185]
24. اپنے بیٹے کو کھلانا صدقہ ہے۔ [نسائی - کبری: 9185]
25. اپنی بیوی کو کھلانا صدقہ ہے۔ [نسائی - کبری: 9185]
26. اپنے خادم کو کھلانا صدقہ ہے۔ [نسائی - کبری: 9185]
27. کسی مصیبت زدہ حاجت مند کی مدد کرنا صدقہ ہے۔ [نسائی: 253]
28. اپنے بھائی سے مسکرا کر ملنا صدقہ ہے۔ [ترمذی: 1963]
29. پانی کا ایک گھونٹ پلانا صدقہ ہے۔ [ابو یعلی: 2434] 
30. اپنے بھائی کی مدد کرنا صدقہ ہے۔ [ابو یعلی: 2434] 
31. ملنے والے کو سلام کرنا صدقہ ہے۔ [ابو داﺅد: 5243]
32. آپس میں صلح کروانا صدقہ ہے۔ [بخاری - تاریخ: 259/3]
33. تمہارے درخت یا فصل سے جو کچھ کھائے وہ تمہارے لئے صدقہ ہے۔ [مسلم:  1553]
34. بھوکے کو کھانا کھلانا صدقہ ہے۔ [بیہقی - شعب: 3367] 
35. پانی پلانا صدقہ ہے۔ [بیہقی - شعب: 3368]
36. دو مرتبہ قرض دینا ایک مرتبہ صدقہ دینے کے برابر ہے۔ [ابن ماجہ: 3430]
37. کسی آدمی کو اپنی سواری پر بٹھا لینا صدقہ ہے۔ [مسلم: 1009]
38. گمراہی کی سر زمین پر کسی کو ہدایت دینا صدقہ ہے۔ [ترمذی: 1963]
39. ضرورت مند کے کام آنا صدقہ ہے۔ [ابن حبان: 3368]
40. علم سیکھ کر مسلمان بھائی کو سکھانا صدقہ ہے۔ [ابن ماجہ: 243]
صرف آپ ہی پڑھ کر آگے نہ بڑھ جائیں بلکہ یہ تحریر صدقہ جاریہ ہے ، شیئر کرکے باقی احباب تک پہنچائیے ، شکریہ, اس میں آپ کا بمشکل ایک لمحہ صرف ہو گا لیکن ہو سکتا ہے اس ایک لمحہ کی اٹھائی ہوئی تکلیف سے آپ کی شیئر کردہ تحریر ہزاروں لوگوں کے لیے سبق آموز ثابت ہو .. 
جزاک اللہ خیرا....

سانپ کا گوشت اونٹ کا پسندیدہ غذا

سانپ کا گوشت اونٹ کی پسندیدہ غذا ہے اور اسے سانپ کا گوشت بے حد اشتیاق دیتا ہے تو وہ اسے کھانا شروع کر دیتا ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ وہ کھانے کی ابتداء اس کی دم سے کرتا ہے پھر آہستہ آہستہ اسے پورا کھا جاتا ہے ، سانپ کا گوشت سخت گرم ہوتا ہے جب اونٹ اسے کھ ا لیتا ہے تو اسے سخت پیاس محسوس ہوتی ہے اور وہ پیاس بھجانے کے لیے پانی کے کسی تالاب پر جاتا ہے اللہ نے تکوینی شکل میں اسے الھام کر رکھا ہے کہ اگر اس نے اس وقت پانی پیا تو سانپ کا زہر اسکے پورے بدن میں پھیل جائے گا ،
https://chat.whatsapp.com/9Vtj3Hu7KxB6uX254VlXjX

باوجود تالاب پر پہنچ کر بھی کچھ دیر کے لیے پانی نہیں پیتا ، پھر وہ زور زور سے بلبلانے لگ پڑتا ہے ، ایسے لگتا ہے جیسے وہ کیسی سخت مشکل میں مبتلا ہے اور کسی کو اپنی مدد کے لیے پکار رہا ہے ، اس وقت اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگ پڑتے ہیں
اللہ نے اس کے پیوٹوں کے نیچے دو چھوٹے چھوٹے گڑھے بنائے ہوئے ہیں ، اس کے آنسو آنکھوں سے نکل کر ان گڑھوں میں جمع ہوتے ہیں اور یوں سانپ کا سارا زہر آنسو بن کر آنکھوں سے باہر آجاتا ہے عقل مند ساربان اس گڑھے میں جمع شدہ پانی کو کسی صاف شیشی میں بھر لیتے ہیں ، وہ زہریلا پانی سانپ اور بچھو کے کٹے کا تریاق دیتا ہے-

ایک طالبہ کہ واقعہ

🪷 *ایک عبرت آموز واقعہ*🪷 

 اسکول کی ایک طالبہ ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتی ہے: جب ہم ثانویہ کے مرحلے میں تھیں۔ ہم کچھ سہیلیاں ناشتہ کے وقفہ میں ایک ساتھ بیٹھتیں اور ہم سب اپنا اپنا ناشتہ ایک ساتھ اس طرح رکھتی کہ کسی کو معلوم نہیں ہوتا کہ کون کیا لایا ہے۔

ایک غريب ونادار بچی تھی جو ناشتے میں کچھ بھی نہیں لاتی تھی۔ میں نے اسے اپنے ساتھ ناشتے میں بیٹھنے کے لئے آمادہ کرلیا۔ کیونکہ ہم لوگوں میں کسی کو نہیں معلوم ہوتا تھا کہ کس کا کون سا ناشتہ ہے۔ 

اسی طرح مدرسے کے ایام گزرتے رہے یہاں تک کہ ثانویہ سے ہماری فراغت کا وقت قریب آگیا۔ اسی دوران اس طالبہ کے والد کا انتقال ہوگیا۔ اس کے والد کے فوت ہوتے ہی اس کے حالات بھی تبدیل ہوگئے یعنی اب وہ پہلے سے بہتر زندگی گزارنے لگی۔ اب وہ اپنے لباس پر بھی توجہ دیتی اور ناشتہ بھی لانے لگی تھی۔ یعنی اب وہ پہلے سے بہتر زندگی جینے لگی تھی۔
https://chat.whatsapp.com/9Vtj3Hu7KxB6uX254VlXjX
یہ سب دیکھ کر میں نے سمجھا کہ شاید باپ کی میراث سے اسے کچھ مال و زر حاصل ہوا ہوگا۔

 ایک مرتبہ میں اس کے ساتھ بیٹھی اور اس سے دریافت کرنے لگی: کیا بات ہے؟ اس تبدیلی کا آخر راز کیا ہے؟
اتنا سنتے ہی وہ میرا ہاتھ پکڑ کر رونے لگی اور کہنے لگی: اللہ کی قسم ہم لوگ رات کو بھوکے سوتے تھے اور مجھے شدت کی بھوک لگی رہتی تھی۔ اس لئے میں صبح سویرے مدرسے جانے کا انتظار کرتی تھی تاکہ آپ لوگوں کے ساتھ کچھ کھا کر بھوک مٹا سکوں۔ اور میری ماں رات کی روٹی چھپا کر رکھ دیتی تھی تاکہ اس سے صبح میرے چھوٹے بھائیوں کا ناشتہ ہو سکے۔ اس لئے میں صبح سویرے جان بوجھ کر مدرسہ نکل جاتی تھی تاکہ میرے بھائی میرے حصے کا بھی ناشتہ کر لیں۔

اور اب جب کہ میرے والد فوت ہو چکے ہیں۔ اب گرد وپیش کے ہمارے عزیز و اقارب، جاننے والے اور دوست واحباب سب ہمارا بڑا خیال رکھنے لگے ہیں کیونکہ اب ہم یتیم ہو چکے ہیں۔ 
"میری بڑی تمنا تھی کہ میرے ابو جان اپنی زندگی میں پیٹ بھر کر کھانا کھا لیتے"۔  اس نے بعینہ یہی الفاظ کہے۔ اس نے بڑی حسرت بھری آواز میں یہ الفاظ کہے۔ اس کے الفاظ کے ساتھ اس کے آنسو بھی رواں تھے۔

 اس نے کہا ہمارے ابو جان جب فوت ہوئے تب لوگوں کو معلوم ہوا کہ ہم واقعی محتاج اور ضرورتمند ہیں۔
وہ یہ سب باتیں کہتے ہوئے بلک بلک کر رو رہی تھی اور میں اس کے ان آنسوؤں کی گرمی آج بھی محسوس کر رہی ہوں۔ 

نصیحت:
کیا ضروری ہے کہ غریب انسان جب مر جائے تبھی مالداروں کو اس کے یتیم بچوں کی غربت کا احساس ہو؟
لوگوں کو کیا ہو گیا ہے آج؟  کہاں ہیں ان کے صدقے؟ کہاں ہیں ان کی زکات؟ اور کہاں ہیں صلہ رحمی؟ کہاں ہے پریشان حال کی امداد؟ اور کہاں گئی شفقت و ہمدردی؟
پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ہر روز صبح کو دو فرشتے نازل ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک کہتا ہے: اے اللہ! خرچ کرنے والے کو نعم البدل عطا فرما اور دوسرا کہتا ہے: اے اللہ! نہ خرچ کرنے والے کے مال کو تباہ و برباد کر دے۔  (صحیح بخاری حدیث نمبر 1374)

ایسے گھرانوں کی دیکھ بھال کریں جو اپنی خود داری کے سبب کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ اپنے عزیز و اقارب، اپنے پڑوسیوں اور دوست احباب کی خبرگیری کریں۔ ان میں ایسے لوگ بھی ہو سکتے ہیں جنہیں نہ جاننے والے مالدار و خوشحال سمجھتے ہیں جبکہ وہ اپنی عزت نفس کی خاطر کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ 
اللہ کی قسم ان میں سے کچھ کی زندگی ایسے کرب و آلام سے گزر رہی ہوتی ہے کہ جس کی آہ و کراہ کو اللہ کے سوا کوئی نہیں سنتا۔
ایسے لوگوں پر خرچ کرو اللہ تمہارے اوپر بھی خرچ کرے گا۔
صدقہ دو۔ اپنے مال کی زکاۃ ادا کرو اور کبھی فقروفاقہ سے نہ ڈرو۔

صدقہ کے ذریعے اپنا ہاتھ ڈھیلا رکھو اللہ تعالی تمہارے اوپر سے مصائب و آفات کو دور کرے گا۔

یقین مانو صدقہ لینے والے سے زیادہ تمہیں خود صدقہ دینے کی ضرورت ہے۔

عربی سے منقول

نفس انسانی کے 7 اقسام

🪷نفسِ انسانی کی اقسام🪷 
🕯️ قران شریف کی نظر میں)

💚اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِہٖ وَسَـــِلّمُ💚❤️

*ایک خوبصورت تحریر جسے پڑھ کہ ہم اپنے نفس کی حالت کے متعلق جان سکتے ہیں اور اپنی باطنی حالت میں مذید بہتری کی کوشش کر سکتے ہیں۔*

💚اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِہٖ وَسَـــِلّمُ💚❤️

نفس کی سات اقسام ہیں جنکے نام درج ذیل ہیں :
*1۔ نفس امارہ*
*2۔ نفس لوامہ*
*3۔ نفس ملھمہ*
*4۔ نفس مطمئنہ*
*5۔ نفس راضیہ*
*6۔ نفس مرضیہ*
*7۔ نفس کاملہ*
نفس امارہ پہلا نفس ہے یہ سب سے زیادہ گناہوں کی طرف مائل کرنے والا اور دنیاوی رغبتوں کی جانب کھینچ لے جانے والا ہے۔ ریاضت اور مجاہدہ سے اس کی برائی کے غلبہ کو کم کر کے جب انسان نفس امارہ کے دائرہ سے نکل آتا ہے تو لوامہ کے مقام پر فائز ہو جاتا ہے۔ اس مقام پر دل میں نور پیدا ہو جاتا ہے۔ جو باطنی طور پر ہدایت کا باعث بنتا ہے
جب نفس لوامہ کا حامل انسان کسی گناہ یا زیادتی کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے تو اس کا نفس اسے فوری طور پر سخت ملامت کرنے لگتا ہے اسی وجہ سے اسے لوامہ یعنی سخت ملامت کرنے والا کہتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس نفس کی قسم کھائی ہے :
وَلَا اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِO
’’اور میں نفس لوامہ کی قسم کھاتا ہوں۔‘‘
القيامة، 75 : 2

💚اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِہٖ وَسَـــِلّمُ💚❤️

تیسرا نفس نفس ملہمہ ہے۔ جب بندہ ملہمہ کے مقام پر فائز ہوتا ہے تو اس کے داخلی نور کے فیض سے دل اور طبعیت میں نیکی اور تقوی کی رغبت پیدا ہو جاتی ہے چوتھا نفس مطمئنہ ہے جو بری خصلتوں سے بالکل پاک اور صاف ہو جاتا ہے اور حالت سکون و اطمینان میں آجاتا ہے۔
یہ نفس بارگاہ الوہیت میں اسقدر محبوب ہے کہ حکم ہوتا ہے :
يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُO ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ.
’’اے نفس مطمئنہ اپنے رب کی طرف لوٹ آ۔‘‘
الفجر، 89 : 27، 28
💚اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِہٖ وَسَـــِلّمُ💚❤️

یہ نفس مطمئنہ اولیاء اللہ کا نفس ہے یہی ولایت صغریٰ کا مقام ہے۔ اس کے بعد نفس راضیہ، مرضیہ اور کاملہ یہ سب ہی نفس مطمئنہ کی اعلیٰ حالتیں اور صفتیں ہیں اس مقام پر بندہ ہر حال میں اپنے رب سے راضی رہتا ہے اس کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے۔
ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةًO
’’اے نفس مطمئنہ اپنے رب کی طرف لوٹ آ اس حال میں کہ تو اس سے راضی ہو۔‘‘
الفجر، 89 : 28

💚اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِہٖ وَسَـــِلّمُ💚❤️

نفس سے مراد کسی چیز کا وجود یا حقیقت یا ذات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نفس امارہ کی مخالفت کا حکم دیا ہے اور ان لوگوں کی تعریف کی ہے جو اپنے نفس کے خلاف چلتے ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَویٰ۝ فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ہِیَ الْمَاْویٰ۝ (اور جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا اور نفس کو خواہش سے روکا، اس کا ٹھکانہ جنت ہے)۔
وَمَا اُبَرِّیُٔ نَفْسِیْ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌ بِاالسُّوٓئِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْ۝ (اور میں اپنے نفس کو بے قصور نہیں بتاتا۔ بے شک نفس تو برائی کا حکم دینے والا ہے مگر جس پر میرا رب رحم کرے)۔
حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے نیکی کا ارادہ رکھتا ہے تو اس کو اس کے نفس کے عیوب سے خبردار کرتا ہے“۔

💚اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِہٖ وَسَـــِلّمُ💚❤️

اور آثار میں ہے کہ اللہ عزوجل نے حضرت داؤد علیہ السلام کو وحی کی ”اے داؤد نفس کی مخالفت کرو کیونکہ میری محبت نفس کی مخالفت میں ہے۔“
حدیث مبارکہ ہے کہ رسول اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ایک سوال فرمایا کہ ایسے رفیق کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جس کا یہ ہو کہ اگر اس کا اعزاز و اکرام کرو، کھانا کھلاؤ، کپڑے پہناؤ تو وہ تمہیں بلا اور مصیبت میں ڈال دے اور تم اگر اس کی توہین کرو، بھوکا ننگا رکھو تو وہ تمہارے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم اس سے زیادہ برا تو دنیا میں ساتھی ہوہی نہیں سکتا۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ نفس جو تمہارے پہلو میں ہے، وہ ایسا ہی ساتھی ہے“۔
ایک اور حدیث ہے کہ حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”تمہارا سب سے بڑا دشمن خود تمہارا نفس ہے جو تمہیں برے کاموں میں مبتلا کرکے ذلیل و خوار کرتا ہے اور طرح طرح کی مصیبتوں میں مبتلا کردیتا ہے۔“

💚اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِہٖ وَسَـــِلّمُ💚❤️

حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ”سب حجابوں سے بڑھ کر حجاب اپنے نفس کی پیروی کرنا ہے“ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”کہ نفس ایسی چیز ہے جو باطل سے سکون حاصل کرتا ہے۔“ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ”کفر کی بنیاد نفس کی اطاعت ہے۔“ حضرت ابو سلمان دارانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ”نفس امانت میں خیانت کرنے والا اور قرب حق سے منع کرنے والا ہے اس لیے بہترین عمل مخالفت نفس ہے۔“
💚اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِہٖ وَسَـــِلّمُ💚❤️

حضرت شیخ الشرف الدین احمد یحییٰ منیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ”نفس بھونکنے اور کاٹنے والا کتا ہے جب وہ ریاضت سے مطیع ہوجائے تو اس کا رکھنا مباح ہے۔“ اسی طرح کشف المحجوب میں ہے کہ ”نفس باغی کتا ہے جس کا چمڑا دباغ یعنی چمڑے رنگنے والا ہی پاک کرسکتا ہے۔ یعنی نفس کو مجاہدہ یا شیخ کامل ہی پاک اور صاف کرسکتا ہے۔

💚اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِہٖ وَسَـــِلّمُ💚❤️

نفس کی تین بڑی اقسام بیان کی گئی ہیں۔
1۔ نفس امارہ۔ 2۔ نفس لوامہ۔ 3۔ نفس مطمئنہ
1۔ نفس امارہ: وہ نفس جو برائی پر ابھارتا ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو حیوانیت کا نام دیا ہے کیونکہ یہ نفس انسان کو جانوروں والی حیوانیت اور سفاکیت پر ابھارتا ہے۔ یعنی جب نفس حیوانی کا قوت روحانی پر غلبہ ہوجائے تو اس کو نفس امارہ کہتے ہیں۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جناب رسول پاک صلّی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک اپنی خواہشات کو میرے لائے ہوئے احکام کے تابع نہ کردے“۔
پیر کرم شاہ الازہری لکھتے ہیں کہ ”صوفیائے کرام کا ارشاد ہے کہ نفس سرکش کو نفس امارہ بھی کہتے ہیں۔ جو امر کا مبالغہ ہے کیونکہ وہ ہروقت برے کاموں کا حکم کرتا رہتا ہے“۔ (ضیاء القرآن)
یہی خواہشات نفسانی روزانہ الوہیت کے تین سو ساٹھ لباس پہن کر سامنے آتی ہے اور بندوں کو گمراہی کی طرف بلاتی ہے۔ قران مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: اَفَرَئَیْتَ مَنِ التَّخَذَ اِلٰہَہٗ ہَوَاہُ (کیا تم نے ان لوگوں کو دیکھا جو خواہشات کو اپنا معبود بنالیتے ہیں)۔ (سورہ جاثیہ)

💚اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِہٖ وَسَـــِلّمُ💚❤️

ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے کہ: وَاتَّبِعْ ہَوَاہُ فَمَثَلُہٗ کَمَثَلِ الْکَلْبِ (جس نے اپنی خواہشات کی پیروی کی اسکی مثال کتے کی طرح ہے)۔ (اعراف)
حقیقت یہ ہے کہ ترک نفس یا ترک خواہش بندے کو امیر بنادیتی ہے اور خواہش کی پیروی امیر کو اسیر بنادیتی ہے۔ جس طرح زلیخا نے اپنے نفس کی پیروی کی، امیر تھی لیکن اسیر (قیدی) ہوگئی اور حضرت یوسف علیہ السلام نے خواہش کو ترک کیا اسیر تھے، امیر ہوگئے۔

💚اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِہٖ وَسَـــِلّمُ💚❤️

حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا ”وصول (قرب خداوندی) کیا ہے؟ کہا خواہش کی پیروی چھوڑدینا ”کیونکہ بندے کی کوئی عبادت خواہش کی مخالفت سے بڑھ کر نہیں۔ ناخن سے پہاڑ کھودنا آسان ہے مگر خواہش کی مخالفت کرنا بہت دشوار ہے۔
بعض مشائخ سے پوچھا گیا کہ اسلام کیا ہے؟ جواب دیا ”مخالفت کی تلواروں سے نفسوں کو ذبح کردینا اسلام ہے“
حضرت خواجہ ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ”عبادتوں کی کنجی فکر ہے اور اللہ رب العزت کی بارگاہ میں رسائی اور قرب کی علامت نفس اور خواہشات کی مخالفت ہے“ (مکتوبات صدی)

💚اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِہٖ وَسَـــِلّمُ💚❤️

نفس اور خواہشات کو قابو کرنے سے متعلق حضرت شیخ شرف الدین رحمۃ اللہ علیہ نے جو کچھ لکھا ہے خلاصۃً پیش ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ”نفس ہر وقت خواہشات کی طلب میں رہتا ہے اور اگر اس کی خواہشات کو پورا کردیا جائے تو ایک بہت لمبی فہرست تیار کرلیتا ہے۔“ اسلام نے انسان کی خواہشات کو دبانے کے بجائے اعتدال پر رکھنے کو پسند کیا ہے۔ عقلمند کے لیے ضروری ہے کہ نفس کو دبانے کی جدوجہد کرتا رہے لیکن یکبارگی اس پر دھاوا بول دینا اور اس کو زیرکردینا دشوار ہے بلکہ اس میں نقصان وغیرہ کا اندیشہ ہے۔ راہ اعتدال یہ ہے کہ قوت دیتے ہوئے اس پر کاموں کا بوجھ ڈالا جائے تاکہ وہ متحمل ہوسکے اور نفس کو اس حد تک کمزور کیا جائے اور سختی سے کام لیا جائے کہ وہ تمہارے حکم سے گریز نہ کرسکے۔ اس کے علاوہ جو طریقے ہیں وہ غلط ہیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ نبی پاک صلّی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ سخت ریاضت و مجاہدہ کی وجہ سے نہایت کمزور ہوگئے ہیں اور ہاتھ پاؤں ہلانے سے بھی عاجز ہیں، انکی آنکھیں اندر دھنسی گئی ہیں، تو نبی پاک صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اے عبداللہ تم پر تمہارے نفس کا بھی حق ہے۔“ اس سے معلوم ہوا کہ نفس کو ہلاک کرنا گناہ ہے۔ اس لیے ایسا طریقہ اختیار کیا جائے کہ نہ وہ انسان پر غالب ہوسکے اور نہ اسکی نافرمانی کرسکے۔ میانہ روی کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے اسے تھوڑا نرم کیا جائے تاکہ لگام دینے کے قابل ہوجائے۔ اس کے راستے کے عاملوں نے کہا کہ نفس کو نرم کرنے کی تین چیزیں ہیں۔
1۔ نفس کو خواہشات اور لذتوں سے روک دیا جائے کیونکہ جب چوپائے دانہ گھاس نہیں پاتے تو نرم ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا دانہ پانی روک دیا جائے تاکہ ساری شرارتیں غائب ہوجائیں۔
2۔ عبادت کا بھاری بوجھ اس پر لادا جائے۔
3۔ اللہ رب العزت سے مدد مانگی جائے اور اس کی بارگاہ میں پناہ تلاش کی جائے۔ وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا۔ ترجمہ: جنہوں نے ہماری راہ میں مجاہدہ کیا ہم ان کو اپنا راستہ دکھا دیتے ہیں۔ (العنکبوت 96/29)

💚اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِہٖ وَسَـــِلّمُ💚❤️

یعنی جو مجاہدہ کرتا ہے اسے مشاہدہ نصیب ہوتا ہے۔ جملہ احکام شریعت پر عمل کرنا، حلال کھانا، حرام و مشتبہ سے بچنا، فرائض و واجبات کی پابندی کرنا یہ سب مجاہدہ ہے اور جو مجاہدہ کرتا ہے اس کا اثر ضرور ظاہر ہوتا ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ گھوڑے کو ریاضت سے ایسا سدھایا جاتا ہے کہ حیوانی صفات چھوڑ کر آدمیت اختیار کرلیتا ہے اور اس کی صفتیں بدل جاتی ہیں یہاں تک کہ زمین سے کوڑا اٹھاکر سوار کو دیتا ہے اور گیند گھماتا ہے۔ اسی طرح وحشی جانوروں کو رام کرلیا جاتا ہے ایک ناپاک کتے کو مجاہدہ و تعلیم دے کر اس مرتبے پر پہنچادیا جاتا ہے کہ اس کا مارا ہوا شکار مومن کے مارے ہوئے شکار کی طرح حلال اور پاک ہوتا ہے۔
الغرض یہ کہ مجاہدہ و ریاضت بالاتفاق پسندیدہ ہے لیکن مجاہدہ کا دیکھنا یعنی (اس کا اعتبار کرنا) ایک آفت ھے

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِہٖ وَسَـــِلّمُ

(اگر تحریر پسند آئے تو لائق اور شئیر کریں تا کہ ذیادہ سے ذیادہ لوگ مستفیض ہو سکیں)