Sunday, November 27, 2022

ایک طالبہ کہ واقعہ

🪷 *ایک عبرت آموز واقعہ*🪷 

 اسکول کی ایک طالبہ ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتی ہے: جب ہم ثانویہ کے مرحلے میں تھیں۔ ہم کچھ سہیلیاں ناشتہ کے وقفہ میں ایک ساتھ بیٹھتیں اور ہم سب اپنا اپنا ناشتہ ایک ساتھ اس طرح رکھتی کہ کسی کو معلوم نہیں ہوتا کہ کون کیا لایا ہے۔

ایک غريب ونادار بچی تھی جو ناشتے میں کچھ بھی نہیں لاتی تھی۔ میں نے اسے اپنے ساتھ ناشتے میں بیٹھنے کے لئے آمادہ کرلیا۔ کیونکہ ہم لوگوں میں کسی کو نہیں معلوم ہوتا تھا کہ کس کا کون سا ناشتہ ہے۔ 

اسی طرح مدرسے کے ایام گزرتے رہے یہاں تک کہ ثانویہ سے ہماری فراغت کا وقت قریب آگیا۔ اسی دوران اس طالبہ کے والد کا انتقال ہوگیا۔ اس کے والد کے فوت ہوتے ہی اس کے حالات بھی تبدیل ہوگئے یعنی اب وہ پہلے سے بہتر زندگی گزارنے لگی۔ اب وہ اپنے لباس پر بھی توجہ دیتی اور ناشتہ بھی لانے لگی تھی۔ یعنی اب وہ پہلے سے بہتر زندگی جینے لگی تھی۔
https://chat.whatsapp.com/9Vtj3Hu7KxB6uX254VlXjX
یہ سب دیکھ کر میں نے سمجھا کہ شاید باپ کی میراث سے اسے کچھ مال و زر حاصل ہوا ہوگا۔

 ایک مرتبہ میں اس کے ساتھ بیٹھی اور اس سے دریافت کرنے لگی: کیا بات ہے؟ اس تبدیلی کا آخر راز کیا ہے؟
اتنا سنتے ہی وہ میرا ہاتھ پکڑ کر رونے لگی اور کہنے لگی: اللہ کی قسم ہم لوگ رات کو بھوکے سوتے تھے اور مجھے شدت کی بھوک لگی رہتی تھی۔ اس لئے میں صبح سویرے مدرسے جانے کا انتظار کرتی تھی تاکہ آپ لوگوں کے ساتھ کچھ کھا کر بھوک مٹا سکوں۔ اور میری ماں رات کی روٹی چھپا کر رکھ دیتی تھی تاکہ اس سے صبح میرے چھوٹے بھائیوں کا ناشتہ ہو سکے۔ اس لئے میں صبح سویرے جان بوجھ کر مدرسہ نکل جاتی تھی تاکہ میرے بھائی میرے حصے کا بھی ناشتہ کر لیں۔

اور اب جب کہ میرے والد فوت ہو چکے ہیں۔ اب گرد وپیش کے ہمارے عزیز و اقارب، جاننے والے اور دوست واحباب سب ہمارا بڑا خیال رکھنے لگے ہیں کیونکہ اب ہم یتیم ہو چکے ہیں۔ 
"میری بڑی تمنا تھی کہ میرے ابو جان اپنی زندگی میں پیٹ بھر کر کھانا کھا لیتے"۔  اس نے بعینہ یہی الفاظ کہے۔ اس نے بڑی حسرت بھری آواز میں یہ الفاظ کہے۔ اس کے الفاظ کے ساتھ اس کے آنسو بھی رواں تھے۔

 اس نے کہا ہمارے ابو جان جب فوت ہوئے تب لوگوں کو معلوم ہوا کہ ہم واقعی محتاج اور ضرورتمند ہیں۔
وہ یہ سب باتیں کہتے ہوئے بلک بلک کر رو رہی تھی اور میں اس کے ان آنسوؤں کی گرمی آج بھی محسوس کر رہی ہوں۔ 

نصیحت:
کیا ضروری ہے کہ غریب انسان جب مر جائے تبھی مالداروں کو اس کے یتیم بچوں کی غربت کا احساس ہو؟
لوگوں کو کیا ہو گیا ہے آج؟  کہاں ہیں ان کے صدقے؟ کہاں ہیں ان کی زکات؟ اور کہاں ہیں صلہ رحمی؟ کہاں ہے پریشان حال کی امداد؟ اور کہاں گئی شفقت و ہمدردی؟
پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ہر روز صبح کو دو فرشتے نازل ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک کہتا ہے: اے اللہ! خرچ کرنے والے کو نعم البدل عطا فرما اور دوسرا کہتا ہے: اے اللہ! نہ خرچ کرنے والے کے مال کو تباہ و برباد کر دے۔  (صحیح بخاری حدیث نمبر 1374)

ایسے گھرانوں کی دیکھ بھال کریں جو اپنی خود داری کے سبب کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ اپنے عزیز و اقارب، اپنے پڑوسیوں اور دوست احباب کی خبرگیری کریں۔ ان میں ایسے لوگ بھی ہو سکتے ہیں جنہیں نہ جاننے والے مالدار و خوشحال سمجھتے ہیں جبکہ وہ اپنی عزت نفس کی خاطر کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ 
اللہ کی قسم ان میں سے کچھ کی زندگی ایسے کرب و آلام سے گزر رہی ہوتی ہے کہ جس کی آہ و کراہ کو اللہ کے سوا کوئی نہیں سنتا۔
ایسے لوگوں پر خرچ کرو اللہ تمہارے اوپر بھی خرچ کرے گا۔
صدقہ دو۔ اپنے مال کی زکاۃ ادا کرو اور کبھی فقروفاقہ سے نہ ڈرو۔

صدقہ کے ذریعے اپنا ہاتھ ڈھیلا رکھو اللہ تعالی تمہارے اوپر سے مصائب و آفات کو دور کرے گا۔

یقین مانو صدقہ لینے والے سے زیادہ تمہیں خود صدقہ دینے کی ضرورت ہے۔

عربی سے منقول

No comments: